کشمیر کے پہلگام میں گذشتہ ماہ ہونے والے حملے کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں اضافہ نظر آ رہا ہے اور دونوں ممالک میں کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومتیں اور ادارے چوکنا ہیں۔
ایسے میں عالمی رہنماؤں اور اقوام متحدہ کی جانب سے دونوں ممالک سے کشیدگی کم کرنے اور تحمل سے کام لینے کی اپیل کی گئی ہے۔ وہیں انڈیا اور پاکستان سے قربت رکھنے والے ممالک نے اِن دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کی اپیل کے ساتھ ثالثی کی بھی پیشکش کی ہے۔ثالثی کی پیشکش کرنے والے ممالک میں ایران اور روس بھی شامل ہیں۔اس سلسلے میں ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی انڈیا کے طے شدہ دورے سے قبل پیر کو پاکستان پہنچے جہاں انھوں نے وزیر اعظم شہباز شریف اور صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کے علاوہ پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے بھی ملاقات کی ہےاس دورے کے بعد ایرانی وزیر خارجہ انڈیا کے دو روزہ دورے پر کل، یعنی بدھ کو، نئی دہلی پہنچ رہے ہیں جہاں وہ اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کا دورہ انڈیا پہلے سے طے شدہ تھا۔ تاہم موجودہ کشیدگی کے تناظر میں انھوں نے انڈیا آنے سے پہلے پاکستان کا دورہ کیا ہے۔ وہ پاکستان کے دورے کے بعد پہلے تہران واپس جائیں گے اور پھر وہاں سے بدھ کے روز انڈیا پہنچیں گے۔
اس دورے سے قبل ہی ایران نے دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کی تجویز پیش کر رکھی ہے۔ پہلگام حملے کے بعد عراقچی نے 25 اپریل کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا تھا کہ ’ایران اس مشکل وقت میں دونوں ممالک کے درمیان بہتر مفاہمت پیدا کرنے کے لیے نئی دہلی اور اسلام آباد میں اپنے دفاتر کے ذریعے کام کرنے کے لیے تیار ہے۔‘
انڈیا میں اس معاملے پر بھی بحث جاری ہے کہ عباس عراقچی پاکستان سے براہ راست انڈیا کیوں نہیں آ رہے ہیں۔بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ انڈیا نے انھیں پاکستان سے براہ راست انڈیا نہ آنے کو کہا ہو گا۔انڈین کونسل آف ورلڈ افیئر کے سینیئر فیلو اور بین الاقوامی امور کے ماہر فضل الرحمان صدیقی نے بی بی سی ہندی کے دلنواز پاشا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈیا نے ایران کو یہ پیغام ضرور دیا ہو گا کہ ایرانی وزیر خارجہ کا دورہ انڈیا پاکستان سے الگ ہونا چاہیے۔ اسی لیے وہ تہران واپس جا کر پھر انڈیا آئیں گے۔‘تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اور فوجی تصادم کے امکانات نے ایران کے لیے صورتحال کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔فضل الرحمان کہتے ہیں کہ اس معاملے میں ’غیر جانبدار رہنا ایران کی مجبوری ہے۔ ایران جس صورتحال میں ہے، وہ کُھل کر انڈیا یا پاکستان میں سے کسی کے ایک ساتھ نہیں جا سکتا۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی ایران کے لیے سفارتی چیلنج پیدا کرے گی۔‘الاقوامی تعلقات کی ماہر رشمی قاضی کہتے ہیں کہ ’ایران کے وسیع تر مفادات انڈیا اور پاکستان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اگر انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی مزید بڑھی تو اس سے ایران کے مفادات متاثر ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلگام حملے کے فوراً بعد ایران نے کہا ہے کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے اور اس کے لیے اسلام آباد اور نئی دہلی میں اس کے دفاتر استعمال کیے جا سکتے ہیں۔‘جے این یو کے پروفیسر اخلاق آین کا کہنا ہے کہ انھوں نے کہا کہ ’ایران موجودہ صورتحال میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے کیونکہ پاکستان کے ساتھ اس کے جیو سٹریٹجک تعلقات ہیں جبکہ انڈیا کے ساتھ اس کے تاریخی، تجارتی اور گہرے روایتی تعلقات ہیں۔‘اُن کے مطابق ایران نہ صرف انڈیا، پاکستان سے اچھے تعلقات رکھتا ہے بلکہ اس کے پاکستان کے دوست ملک چین کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں۔ اس کے علاوہ روس کے ساتھ بھی اس کے روابط اچھے ہیں۔نھوں نے کہا کہ ’یہی کردار روس بھی ادا کر سکتا ہے کیونکہ اس کے بھی دونوں ممالک سے اچھے تعلقات ہیں۔( تحریر؛مرزا اے بی بیگ ‘بشکریہ بی بی سی٫اس رائے سے اتفاق ضروری نہیں )