بہارکی مشہور علمی شخصیت ڈاکٹرمولانا ابوالکلام قاسمی شمسی سابق پرنسپل مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کئی اہم اداروں سے منسلک ہیں۔ گوناگوں صلاحیت کے مالک سنجیدہ مزاج کے حامل، معاملہ فہم ، صاحب بصیرت باکمال باصلاحیت اور عظیم قلمکار عالم دین ہیں۔ نیزتجربات ومشاہدات سے بھرپور بہترین منتظم کاربھی ہیں۔ ہمہ جہت مشغولیت کے باوجود آپ کے قلم گہر بار سے کئی اہم تحقیقی کتابیں منصہ شہود پر رونما ہوئی ہیں۔جیسے تین جلدوں میں’’ تذکرہ علمائے بہار‘‘ قدیم اردو زبان کی تاریخ اورتحریک آزادی ہند میں علمائے کرام کاحصہ‘‘ وغیرہ جو بڑی معلوماتی اورتحقیقی کتابیں ہیں۔
بہار کا تاریخی خطہ ضلع دربھنگہ کے مردم خیزگاؤں دوگھرا جالے میں آپ کی ولادت ۲۵؍اکتوبر ۱۹۵۱ء میں ہوئی ۔والدگرامی کانام عبدالستار ہے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد دارالعلوم دیوبند سے فضیلت کی سندحاصل کی، پھر مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ سے فضیلت ، بعدہٗ پرائیویٹ سے میٹرک، انٹر، گریجویشن اوربہاریونیورسیٹی مظفرپور سے ایم اے اردو کیا اور2015ء میں نالندہ اوپن یونیورسیٹی پٹنہ سے پی ایچ ڈی کی سند ملی۔
1976ء سے 1996 تک شمس الہدیٰ میں استاد اور 1997 سے 2011 تک پرنسپل رہے، تعلیمی میدان میں عمدہ کارکردگی کے باعث 1999ء میں صدارتی ایوارڈ سے نوازاگیا۔
آپ کی کارکردگی کادائرہ بہت وسیع اورمتنوع ہے۔ مشفق استاد، بہتر منتظم، انشا پرداز ادیب، قلم کار، فن کار، مؤرخ، محقق اورمفسر قرآن ہونے کی بھی سعادت نصیب ہوئی نیز اپنے گاؤں میں مشرقی عیدگاہ کے امام عیدین بھی ہیں۔ اسی طرح بہت سی تنظیموں سے گہری وابستگی ہے۔ یہ حقیر راقم الحروف آل انڈیا ملی کونسل بہار کا جنرل سکریٹری ہے اورآپ اس کے نائب صدر ہیں آپ کی نگرانی میں کام کرنے کا اوربہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔
عالمانہ وضع قطع میں تہذیب وشائستگی کاپیکر، حلم وبردباری ، تواضع وانکساری، سادگی نرم مزاجی اورفکری توازن اوراعتدال پسندی خاص شیوہ ہے۔ قاسمی شمسی، مذہبی اورعصری علوم کا سنگم قدیم صالح اورجدید نافع کاحسین امتزاج آپ کا امتیازی وصف ہے۔ جید عالم دینے ہونے کے باعث عقیدہ کی مضبوطی سے صداقت وخیر کی اشاعت میں کوشاں رہتے ہیں۔ تحریری خدمات کادائرہ نہایت وقیع اورقابل قدر ہے مگران سب میں ابھی پیش نظرآپ کاایک عظیم علمی قلمی کارنامہ قرآن مقدس کااردو ترجمہ اورتفسیر ہے جو تسہیل القرآن کے نام سے لکھنے کی سعادت ملی۔ ہماری معلومات کے مطابق حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہٗ کے بعد آپ بہار کی دوسری شخصیت ہیں جنہیں مترجم ومفسرقرآن ہونے کا شرف حاصل ہوانیز اتفاق کی بات ہے کہ دونوں کا گاؤں بھی متصل ہے جالے سے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کاتعلق ہے تودوگھرا سے آپ کا۔ عام طور سے دونوں کو ایک ساتھ جالے دوگھرا بولاجاتا ہے۔ یہ دونوں دربھنگہ ضلع میں واقع ہے۔
آپ کی فاضلانہ تصنیف تسہیل القرآن یعنی آسان ترجمہ قرآن ومختصرتفسیر اردو زبان میں جدیدلب ولہجہ میں بڑی عمدہ تفسیر ہے۔ اورترجمہ بہت سلیس کیا ہے۔ اورایسا رواں ہے کہ صرف ترجمہ کوپڑھا جائے توسب باہم مربوط نظرآتے ہیں۔ ثقیل الفاظ سے گریز کیا ہے تاکہ عام فہم ہو۔ نیز جدید اسلوب کی پوری رعایت کی گئی ہے ۔ چند نمونہ ملاحظہ ہو:
افنضرب عنکم الذکر صفحا ان کنتم قوما مسرفین (الزخرف:۵)
کیا ہم تم سے اس نصیحت (نامہ) کواس بات پرہٹالیں گے کہ تم حد(اطاعت) سے گزرنے والے ہو(حضرت تھانویؒ) کیاپھیردیں گے ہم تمہاری طرف سے یہ کتاب موڑکر اس سبب سے کہ تم ایسے لوگ کہ حد پر نہیں رہتے( حضرت شیخ الہندؒ)
تو کیا ہم تم سے ذکر کا پہلو پھیردیں اس پرکہ تم لوگ حد سے بڑھنے والے ہو(احمد رضا خاںؒ)
تو کیاہم تم سے بیزار ہوکر اس نصیحت کی کتاب کو اس لئے بھیجنا بندکردیں کہ تم حدسے گزرے ہوئے لوگ ہو۔(تسہیل القرآن، ابوالکلام قاسمی) یہ صرف چارترجمہ کو دیکھ کر ان کے مفہوم آمیز ترجمہ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ایک اورآیت کا ترجمہ دیکھیں:
ماانت بنعمۃ ربک بمجنون (القلم: ۲)
آپ اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہیں( جیساکہ منکرین نبوت کہتے ہیں) حضرت تھانویؒ
تو نہیں اپنے رب کے فضل سے دیوانہ( شیخ الہندؒ)
تم اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں(احمد رضا خانؒ)
آپ اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہیں(ابوالکلام قاسمی)
ان سب میں اندازہ لگائیں کہ عام فہم اورکتنا سہل ترجمہ انہوں نے کیا ہے۔
وھدینہ النجدین (البلد:۱۰)
اور(پھر ) ہم نے اس کو دونوں راستے (خیر وشر کے) بتلادیئے۔ (حضرت تھانویؒ)
اوردکھلادیں اس کو دوگھاٹیاں،(شیخ الہندؒ)
اوراسے دو ابھری چیزوںکی راہ بتائی(احمد رضا خانؒ)
اوردونوں راستے اسے نہیں دکھادئے؟(ابوالکلام قاسمی)
ان مثالوں سے ان کے ترجمہ کااندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ کتناآسان عام فہم ہے۔
مختصر تفسیر تسہیل القرآن کے نام سے ہرصفحہ کے حاشیہ میں سہ جانب، تفسیر عثمانی کے طرز پر لکھا ہے۔
قرآنی آیات کے معنی ومطالب کو سمجھنے کے لئے یہ تفسیر کافی ہے۔اور اطمینان بخش تشریح اس سے ہوجاتی ہے۔ بہت جامعیت کے ساتھ مختصر الفاظ میں کماحقہٗ اس کی تفسیر بیان کردی گئی ہے اوراس بات کا بھی التزام کیاگیا ہے کہ اگر ایک آیت کی تشریح دوسری آیت سے ہوتی ہے تو اس کو حوالہ کے ساتھ ذکر کردیاگیا ہے۔ اسی طرح حدیث کی کتابوں کابھی حوالہ درج کردیاگیا ہے۔ مشغولیت کے اس دور میں کم وقت میں اگرمقصود الٰہی اوراحکام الٰہی کو جاننا ہو تو یہ مختصر تفسیر ایک ہی جلد میں نہایت مفید اورعمدہ ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کمال ہے کہ اس کے مطالعہ میں کہیں لفظی پریشانی نہیں ہوتی ہے۔ نہایت سلیس زبان میں اور اس کی حلاوت سے دلچسپی بڑھتی چلی جاتی ہے اورقاری کو مطالعہ پر مہمیز عطا کرتی ہے۔ اس کی کتابت وطباعت نہایت نفیس اوردیدہ زیب ہے۔ یورپین پرنٹرس دہلی سے طبع ہوکر 2021 میں منظرعام پر آئی ہے۔
بلاشبہ اس عظیم کارنامہ پر آپ مبارکباد کے مستحق ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ عظیم سعادت بخشی کہ آخری الہامی کتاب کے معنی ومفاہیم کو اردو دنیا کیلئے آسان بناکر پیش کیا۔ جتنے لوگ اس سے استفادہ کریں گے وہ سب انشاء اللہ آپ کے لئے صدقہ جاریہ ہوگا۔اللہ تعالیٰ اسے شرف قبولیت عطا فرماکر نافع عام بنائے اورآپ کواجرعظیم سے نوازے۔ نیز دعا ہے کہ شجر سایہ دارکے مانند آپ کی ذات گرامی ہم سب پر تادیرقائم رہے اورآپ کے علم وتجربات سے ہم لوگ مستفیض ہوتے رہیں۔
جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل بہار