(سورہ بقرہ1تا162آیات کاحاصل مطالعہ)
تحریر:مولانا رضوان احمد اصلاحی، پٹنہ
گذشتہ تقریبا ایک سال سے میں سورہ بقرہ پڑھ رہا ہوں،اب تک 162آیات تک کا مطالعہ کرسکا ہوں۔ ان آیات کا مطالعہ تو صاف یہ بتارہا ہے کہ اللہ نے یہودیوں کو دنیا کی امامت وقیادت سے سب دن کے لیے معزول کردیا ہے اب دنیا ان کی امامت وقیادت کے بغیر چلے گی،ان کی جگہ کون لے گا اس راز کو آیت 162کے بعد کھولا گیا ہے جس کو پڑھنا پڑے گا۔
سورہ بقرہ کا اصل خطاب یہود سے ہے،ضمناً مسلمانوں اور بنی اسماعیل کو بھی مخاطب کیا گیا ہے،اس سورہ میں تمہیدی حصہ جو آیت 1سے 39تک پھیلاہواہے اس میں دیگر مضامین کے علاوہ آدم اور ابلیس کا واقعہ دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے اس میں یہود اور ان کے ہم نواؤں پر یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ آدم کی خلافت کے خلاف جس نوعیت کا غم وغصہ اور حسد ابلیس کو تھا اسی نوعیت کا غم وغصہ اور حسد اللہ کے آخری رسول اور مسلمانوں کے خلاف یہودیوں میں پایاجاتا ہے۔اس کے بعد آیات121تک یہودیوں کی شرارت اور عہدشکنیوں کا تفصیل سے تذکرہ کیا گیا ہے۔بلکہ عہدشکنیوں کی نشاہدی اپنی نعمت کی یاددہانی باندازملامت کی گئی ہے۔یعنی تم احسان فراموش قوم ہو، اللہ نے تمہیں ایک سے ایک نعمت دی لیکن تم سب کو بھول بیٹھے ہو۔ وہ کیا نعمتیں ہیں جن کو یہ قوم فراموش کرچکی ہے قرآن نے اس کی نشاندہی فرمائی ہے۔ان میں سے چند نعمتوں کی فہرست قرآن نے ان آیات میں جاری کردی ہے۔
آیت نمبر 40 میں کہا گیا:اے بنی اسرائیل! ذرا خیال کرو اس نعمت کا جو میں نے تم کو عطا کی تھی، میرے ساتھ تمہارا جو عہد تھا اُسے تم پورا کرو، تو میرا جو عہد تمہارے ساتھ تھا اُسے میں پورا کروں گا اور مجھ ہی سے ڈرو۔
اسی مضمون کو ذرا تفصیل سے آیت 47میں کہا گیا”ترجمہ:اے بنی اسرائیل! یاد کرو میری اُس نعمت کو، جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا اور اس بات کو کہ میں نے تمہیں دنیا کی ساری قوموں پر فضیلت عطا کی تھی(سورہ بقرہ:47)
قرآن نے یہاں چند نعمتوں کا تذکرہ کیا ہے جیسے فرقان اور کتاب دی گئی،فرعونیوں کی غلامی سے نجات بخشی،جو تمہارے لڑکوں کو ذبح کرتے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے،بچھڑابنانے اور اس کی پرستش کرنے پر معافی دے دی،بطور خاص دوعذاب یعنی صاعقہ اور رجفہ سے نجات دی۔
من وسلوی کی غذا تمہارے لیے فراہم کی اور دیگر پاکیزہ رزق عطا کئے،زمین کی پیداوار ساگ،ترکاری،گیہوں،لہسن،پیاز،دال وغیرہ کے مطالبے پورے کئے، پانی کے بارہ چشمے نکال دئیے، اچھا ٹھکانہ اور عمدہ وسائل زندگی عطاء کی۔
اللہ تعالی نے یہودیوں سے صاف صاف کہا تھا کہ میری نعمتوں کا تقاضا ہے کہ تم میرے عہد کو پورا کرو میں تمارے عہد کو پورا کروں گا لیکن یہودیوں نے ایک ایک کرکے سارے عہد توڑ ڈالے،اسی کو قرآن نے چارشیٹ کے طور پر پیش کرکے اس کو امامت وقیادت سے سب دن کے لیے معزول کرنے کا اعلان کردیا ہے۔آیت 64سے عہدشکنیوں کی فہرست جاری کی گئی ہے۔
۱۔اللہ کا حکم تھا جو چیز ہم نے تم کودی ہے اسے مضبوطی کے ساتھ یاد رکھو،لیکن انہوں نے اسے فراموش کیا اور اللہ کے غضب کے مستحق ہوئے۔
۲۔قانون سبت کو توڑا اور اس کی حرمت پامال کیا،اس کے پاداش میں وہ دھتکارے گئے،ذلیل اور بندر بنائے گئے۔
۳۔بقرہ ذبح کرنے کے حکم سے سرموانحراف کرنے کے لیے طرح طرح کے حیلے بہانے کئے،
۳۔ نفس انسانی کے قتل کے پاداش میں ان کے دل سخت ہوگئے،پتھر کے مانندسخت بلکہ اس سے بھی سخت
۴۔ یہودی علماء مفتی اور قاضی نے کلام اللہ میں تحریف کا ارتکاب کیا،
۵۔اپنے ہاتھوں سے شریعت تصنیف کرنے لگے۔تھوڑی قیمت میں اللہ کی آیت کوبیچنے لگے۔
۶۔ یہودیوں کے جہلاء(ان پڑھ) نے کتاب الہی کو اپنی آرزوں کا مجموعہ بنادیا۔
۷۔ اللہ پر تہمت لگایا(نعوذ باللہ)
۸۔ اللہ کی بندگی، والدین کے ساتھ احسان، قرابت داروں،یتیموں،مسکینون کے ساتھ حسن سلوک اور حقوق کی ادائیگی،لوگوں سے اچھی بات کہنے،نمازقائم کرنے اور زکوۃ دینے سے متعلق جو عہد لیا گیا تھا ان یہودیوں نے اسے توڑڈالا۔
۹۔ ان سے عہد لیا گیا تھا کہ اپنوں کا خون نہیں بہاوگے، ان کو اپنی بستیوں سے نہیں نکالوگے،اقرارکرنے کے باجودانہوں نے اپنوں کو قتل کیا،ان کو بستیوں سے نکالا، ان کے خلاف حق تلفی کی اور زیادتی کی،ان کے دشمنوں کی مدد کرتے رہے،قیدی بن کرآئے تو فدیہ وصول کرتے رہے، جب کہ ان کو گھرسے نکالنا ہی حرام تھا۔
۰۱۔ کتاب الہی کے ایک حصے پر ایمان اور دوسرے حصے کا انکار کرتے رہے۔
۱۱۔ نبیوں کو جھٹلایا،جانتے بوجھتے پہچاننے سے انکار کردیا اور قتل کیاجس کی وجہ سے ان پراللہ کی لعنت پڑگئی۔
۲۱۔ بچھڑے کو معبود بنایا اور پرستش کی،
۳۱۔ فرشتوں سے دشمنی اور مخالفت کی،
ان عہدشکنیوں کے بعد قرآن نے لگے ہاتھ ان کی بعض شرارتوں کا تذکرہ بھی کردیا ہے۔
۱۔بعض یہودی محض منافقانہ اغراض کے لیے آپ ﷺ کی مجلس میں شریک ہوتے اور ”راعنا“ کا لفظ باربار دہراتے تاکہ ذرا سا زبان کو توڑ مروڑ کراستعمال کرنے سے آپ ﷺ کی توہین کا پہلوپیدا کیا جاسکے، یعنی راعنا کو ذرانیچے کی طرف دباکراداکرنے سے بہ آسانی راعینا بنا لیتے، جس کے معنی ہمارے چرواہے کے ہیں۔ اس طرح کے اور بھی الفاظ سے آپ ﷺ کی توہین کرتے تھے۔بلکہ اس طرح کی شرارت کا فن منافقین مدینہ میں بھی منتقل کیا۔
۲۔یہودی مسلمانوں کے دلوں میں یہ وسوسہ ڈالتے تھے کہ اللہ نے تورات کے قوانین کو کیوں خود اپنے ہاتھوں سے بدل ڈالا،کیا اب تجربہ کے بعد خداپر اپنی غلطیاں واضح ہورہی ہیں (نغوذ باللہ)۔
۳۔ ان کی ایک شرارت یہ بھی تھی کہ نجات کے لیے یا حصول جنت کے لیے آدمی کو یہودیت یا نصرانیت اختیار کرنی ہو گی کیوں یہ دونوں خداائی دین ہیں۔
۴۔ تحویل قبلہ کو موضوع بنا کر طوفان بد تمیزی اورشرارت کی انتہا کردی کہ جب قبلہ بیت المقدس ہے تو خانہ کعبہ کیسے قبلہ بن سکتا ہے۔
۵۔ ایک شرارت یہ بھی تھی اللہ کے بیٹے بیٹیاں ہیں،یہود عزیر کو اللہ کا بیٹا اور نصاریً میسح کو اللہ کا بیٹا قراردیتے تھے۔
ان تمام شرارتوں کا نہ صرف قرآ.ن نے تذکرہ کیا ہے بلکہ مدلل اور شافی جواب دیا ہے، عقلی دلائل بھی دئے ہیں اور ان کی کتاب اور شریعت سے بھی دلائل دئے گئے ہیں۔دلائل کے ضمن میں اس کا بھی تذکرہ ہے کہ یہ تم جو اپنے آپ کو اولاد ابراہیم کہتے ہوتو حضرت ابراہیم کو امامت اور پیشوائی وراثت میں نہیں ملی تھی،بلکہ یہ اللہ کاعطیہ تھاجس کے لیے اللہ نے پہلے ان کو مختلف امتحانوں میں ڈال کر ان کی اطاعت وفاداری کی اچھی طرح جانچ کی،بیت اللہ کو قبلہ بنانے پر اعتراض بالکل بے معنی ہے کیوں کہ اس گھر کی تعمیر خود ابرہیم اور اسماعیل نے کی تھی یہ تمام ذریت ابراہیم کے لیے مرکز ہدایت ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ عین دعاء ابراہیم کے مظہر ہیں،اسی ملت ابراہیمی کے داعی ہیں،پھر تم اس نبی اور شریعت میں کیوں میخیں نکال رہے ہو،تم بیوقوف ہو،تمہارے اوپر اللہ کی لعنت ہو،ان جرائم،شرارتوں اور عہدشکنیوں کے پاداش میں اب تمہاری امامت وقیادت ختم کی جاتی ہے۔ آج کے بعد سے کوئی ان کی امامت وقیادت ورہنمائی کا انتظار نہیں کرے گا،دنیا ان کی امامت وقیادت کے بغیر چل سکتی ہے اور چلے گی۔اب دنیا میں کن لوگوں کی اور کس امت کی امامت وقیادت چلے لے گی اس پر آئندہ روشنی ڈالی جائے گی۔تفصیلی مضمون کا انتظار کیجئے۔انشاء اللہ
. . . . ۸۱/جون۵۲۰۲ء
گذشتہ تقریبا ایک سال سے میں سورہ بقرہ پڑھ رہا ہوں،اب تک 162آیات تک کا مطالعہ کرسکا ہوں۔ ان آیات کا مطالعہ تو صاف یہ بتارہا ہے کہ اللہ نے یہودیوں کو دنیا کی امامت وقیادت سے سب دن کے لیے معزول کردیا ہے اب دنیا ان کی امامت وقیادت کے بغیر چلے گی،ان کی جگہ کون لے گا اس راز کو آیت 162کے بعد کھولا گیا ہے جس کو پڑھنا پڑے گا۔
سورہ بقرہ کا اصل خطاب یہود سے ہے،ضمناً مسلمانوں اور بنی اسماعیل کو بھی مخاطب کیا گیا ہے،اس سورہ میں تمہیدی حصہ جو آیت 1سے 39تک پھیلاہواہے اس میں دیگر مضامین کے علاوہ آدم اور ابلیس کا واقعہ دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے اس میں یہود اور ان کے ہم نواؤں پر یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ آدم کی خلافت کے خلاف جس نوعیت کا غم وغصہ اور حسد ابلیس کو تھا اسی نوعیت کا غم وغصہ اور حسد اللہ کے آخری رسول اور مسلمانوں کے خلاف یہودیوں میں پایاجاتا ہے۔اس کے بعد آیات121تک یہودیوں کی شرارت اور عہدشکنیوں کا تفصیل سے تذکرہ کیا گیا ہے۔بلکہ عہدشکنیوں کی نشاہدی اپنی نعمت کی یاددہانی باندازملامت کی گئی ہے۔یعنی تم احسان فراموش قوم ہو، اللہ نے تمہیں ایک سے ایک نعمت دی لیکن تم سب کو بھول بیٹھے ہو۔ وہ کیا نعمتیں ہیں جن کو یہ قوم فراموش کرچکی ہے قرآن نے اس کی نشاندہی فرمائی ہے۔ان میں سے چند نعمتوں کی فہرست قرآن نے ان آیات میں جاری کردی
آیت نمبر 40 میں کہا گیا:اے بنی اسرائیل! ذرا خیال کرو اس نعمت کا جو میں نے تم کو عطا کی تھی، میرے ساتھ تمہارا جو عہد تھا اُسے تم پورا کرو، تو میرا جو عہد تمہارے ساتھ تھا اُسے میں پورا کروں گا اور مجھ ہی سے ڈرو۔
اسی مضمون کو ذرا تفصیل سے آیت 47میں کہا گیا”ترجمہ:اے بنی اسرائیل! یاد کرو میری اُس نعمت کو، جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا اور اس بات کو کہ میں نے تمہیں دنیا کی ساری قوموں پر فضیلت عطا کی تھی(سورہ بقرہ:47)
قرآن نے یہاں چند نعمتوں کا تذکرہ کیا ہے جیسے فرقان اور کتاب دی گئی،فرعونیوں کی غلامی سے نجات بخشی،جو تمہارے لڑکوں کو ذبح کرتے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے،بچھڑابنانے اور اس کی پرستش کرنے پر معافی دے دی،بطور خاص دوعذاب یعنی صاعقہ اور رجفہ سے نجات دی۔
من وسلوی کی غذا تمہارے لیے فراہم کی اور دیگر پاکیزہ رزق عطا کئے،زمین کی پیداوار ساگ،ترکاری،گیہوں،لہسن،پیاز،دال وغیرہ کے مطالبے پورے کئے، پانی کے بارہ چشمے نکال دئیے، اچھا ٹھکانہ اور عمدہ وسائل زندگی عطاء کی۔
اللہ تعالی نے یہودیوں سے صاف صاف کہا تھا کہ میری نعمتوں کا تقاضا ہے کہ تم میرے عہد کو پورا کرو میں تمارے عہد کو پورا کروں گا لیکن یہودیوں نے ایک ایک کرکے سارے عہد توڑ ڈالے،اسی کو قرآن نے چارشیٹ کے طور پر پیش کرکے اس کو امامت وقیادت سے سب دن کے لیے معزول کرنے کا اعلان کردیا ہے۔آیت 64سے عہدشکنیوں کی فہرست جاری کی گئی ہے۔
۱۔اللہ کا حکم تھا جو چیز ہم نے تم کودی ہے اسے مضبوطی کے ساتھ یاد رکھو،لیکن انہوں نے اسے فراموش کیا اور اللہ کے غضب کے مستحق ہوئے۔
۲۔قانون سبت کو توڑا اور اس کی حرمت پامال کیا،اس کے پاداش میں وہ دھتکارے گئے،ذلیل اور بندر بنائے گئے۔
۳۔بقرہ ذبح کرنے کے حکم سے سرموانحراف کرنے کے لیے طرح طرح کے حیلے بہانے کئے،
۳۔ نفس انسانی کے قتل کے پاداش میں ان کے دل سخت ہوگئے،پتھر کے مانندسخت بلکہ اس سے بھی سخت
۴۔ یہودی علماء مفتی اور قاضی نے کلام اللہ میں تحریف کا ارتکاب کیا،
۵۔اپنے ہاتھوں سے شریعت تصنیف کرنے لگے۔تھوڑی قیمت میں اللہ کی آیت کوبیچنے لگے۔
۶۔ یہودیوں کے جہلاء(ان پڑھ) نے کتاب الہی کو اپنی آرزوں کا مجموعہ بنادیا۔
۷۔ اللہ پر تہمت لگایا(نعوذ باللہ)
۸۔ اللہ کی بندگی، والدین کے ساتھ احسان، قرابت داروں،یتیموں،مسکینون کے ساتھ حسن سلوک اور حقوق کی ادائیگی،لوگوں سے اچھی بات کہنے،نمازقائم کرنے اور زکوۃ دینے سے متعلق جو عہد لیا گیا تھا ان یہودیوں نے اسے توڑڈالا۔
۹۔ ان سے عہد لیا گیا تھا کہ اپنوں کا خون نہیں بہاوگے، ان کو اپنی بستیوں سے نہیں نکالوگے،اقرارکرنے کے باجودانہوں نے اپنوں کو قتل کیا،ان کو بستیوں سے نکالا، ان کے خلاف حق تلفی کی اور زیادتی کی،ان کے دشمنوں کی مدد کرتے رہے،قیدی بن کرآئے تو فدیہ وصول کرتے رہے، جب کہ ان کو گھرسے نکالنا ہی حرام تھا۔
۰۱۔ کتاب الہی کے ایک حصے پر ایمان اور دوسرے حصے کا انکار کرتے رہے۔
۱۱۔ نبیوں کو جھٹلایا،جانتے بوجھتے پہچاننے سے انکار کردیا اور قتل کیاجس کی وجہ سے ان پراللہ کی لعنت پڑگئی۔
۲۱۔ بچھڑے کو معبود بنایا اور پرستش کی،
۳۱۔ فرشتوں سے دشمنی اور مخالفت کی،
ان عہدشکنیوں کے بعد قرآن نے لگے ہاتھ ان کی بعض شرارتوں کا تذکرہ بھی کردیا ہے۔
۱۔بعض یہودی محض منافقانہ اغراض کے لیے آپ ﷺ کی مجلس میں شریک ہوتے اور ”راعنا“ کا لفظ باربار دہراتے تاکہ ذرا سا زبان کو توڑ مروڑ کراستعمال کرنے سے آپ ﷺ کی توہین کا پہلوپیدا کیا جاسکے، یعنی راعنا کو ذرانیچے کی طرف دباکراداکرنے سے بہ آسانی راعینا بنا لیتے، جس کے معنی ہمارے چرواہے کے ہیں۔ اس طرح کے اور بھی الفاظ سے آپ ﷺ کی توہین کرتے تھے۔بلکہ اس طرح کی شرارت کا فن منافقین مدینہ میں بھی منتقل کیا۔
۲۔یہودی مسلمانوں کے دلوں میں یہ وسوسہ ڈالتے تھے کہ اللہ نے تورات کے قوانین کو کیوں خود اپنے ہاتھوں سے بدل ڈالا،کیا اب تجربہ کے بعد خداپر اپنی غلطیاں واضح ہورہی ہیں (نغوذ باللہ)۔
۳۔ ان کی ایک شرارت یہ بھی تھی کہ نجات کے لیے یا حصول جنت کے لیے آدمی کو یہودیت یا نصرانیت اختیار کرنی ہو گی کیوں یہ دونوں خداائی دین ہیں۔
۴۔ تحویل قبلہ کو موضوع بنا کر طوفان بد تمیزی اورشرارت کی انتہا کردی کہ جب قبلہ بیت المقدس ہے تو خانہ کعبہ کیسے قبلہ بن سکتا ہے۔
۵۔ ایک شرارت یہ بھی تھی اللہ کے بیٹے بیٹیاں ہیں،یہود عزیر کو اللہ کا بیٹا اور نصاریً میسح کو اللہ کا بیٹا قراردیتے تھے۔
ان تمام شرارتوں کا نہ صرف قرآ.ن نے تذکرہ کیا ہے بلکہ مدلل اور شافی جواب دیا ہے، عقلی دلائل بھی دئے ہیں اور ان کی کتاب اور شریعت سے بھی دلائل دئے گئے ہیں۔دلائل کے ضمن میں اس کا بھی تذکرہ ہے کہ یہ تم جو اپنے آپ کو اولاد ابراہیم کہتے ہوتو حضرت ابراہیم کو امامت اور پیشوائی وراثت میں نہیں ملی تھی،بلکہ یہ اللہ کاعطیہ تھاجس کے لیے اللہ نے پہلے ان کو مختلف امتحانوں میں ڈال کر ان کی اطاعت وفاداری کی اچھی طرح جانچ کی،بیت اللہ کو قبلہ بنانے پر اعتراض بالکل بے معنی ہے کیوں کہ اس گھر کی تعمیر خود ابرہیم اور اسماعیل نے کی تھی یہ تمام ذریت ابراہیم کے لیے مرکز ہدایت ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ عین دعاء ابراہیم کے مظہر ہیں،اسی ملت ابراہیمی کے داعی ہیں،پھر تم اس نبی اور شریعت میں کیوں میخیں نکال رہے ہو،تم بیوقوف ہو،تمہارے اوپر اللہ کی لعنت ہو،ان جرائم،شرارتوں اور عہدشکنیوں کے پاداش میں اب تمہاری امامت وقیادت ختم کی جاتی ہے۔ آج کے بعد سے کوئی ان کی امامت وقیادت ورہنمائی کا انتظار نہیں کرے گا،دنیا ان کی امامت وقیادت کے بغیر چل سکتی ہے اور چلے گی۔اب دنیا میں کن لوگوں کی اور کس امت کی امامت وقیادت چلے لے گی اس پر آئندہ روشنی ڈالی جائے گی۔تفصیلی مضمون کا انتظار کیجئے۔انشاء اللہ