فکر ونظر:ظہیر الدین بھٹی
ڈپریشن (مایوسی، غم زدگی، افسردگی، پست حوصلگی) ہمارے معاشرے میں پھیلا ہوا ایک نمایاں مرض ہے۔ نفسیاتی اور طبی کلینکس پر، آنے والے نفسیاتی مسائل کے شکار لوگوں کی ایک بڑی تعداد ڈپریشن کا شکار ہوتی ہے۔
اہم اسباب: خوف یا بے چینی انسان کے ساتھ پیدا نہیں ہوتے، تاہم اعصابی امراض انسان کو ورثے میں ضرور ملتے ہیں۔ ماحولیاتی اسباب ان وراثتی امراض میں اضافہ کردیتے ہیں۔ ڈپریشن کے اسباب خاندان، اسکول، دفتر یا کارخانے (کام کرنے کی جگہ) کے ماحول میں پوشیدہ ہوتے ہیں۔ بے چینی کا اہم ترین سبب وہ گھر ہے جس میں اختلاف ہو، غلط فہمی ہو، یا والدین اپنے بچوں کو نظرانداز کرتے ہوں۔ گو ایسا معاشرہ بھی ڈپریشن کا سبب بنتا ہے جس میں مادی برتری اور تنازع للبقا کی کش مکش جاری ہو۔ انسان کی آرزوئیں اور خواہشات جب اخلاق اور ضمیر سے متصادم ہوں تو ڈپریشن کا مرض جنم لیتا ہے
اہم علامات: تنگ دلی کا احساس، عدم اطمینان، تلخ سوچ، نیند میں گڑبڑ۔ کبھی یہ نفسیاتی اضطراب جسم پر بھی ظاہر ہوتا ہے، مثلاً پہلوئوں کا ٹھنڈا ہوجانا، زیادہ پسینہ آنا، دل زور زور سے دھڑکنا، معدے کا سکڑنا، جسم کی کمزوری اور انتہائی تھکاوٹ، کام کرنے کی صلاحیت میں تعطل۔ کبھی انسان وقتی علاج کے لیے بیداری کے خوابوں میں پناہ لیتا ہے۔ معاملہ اعصابی بے چینی تک پہنچ جاتا ہے۔ مریض وسوسوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ وہ موت یا بیماری کے بارے میں ہی سوچتا رہتا ہے۔ اُونچی جگہوں پر چڑھنے سے ڈرنا، تنگ کمروں سے گھبرانا، غیرارادی وسوسوں میں مبتلا ہونا، جیسے ہاتھوں کو بار بار دھونا۔ ڈپریشن کا مریض کبھی کبھی تیز دوروں کا شکار رہتا ہے جو کئی منٹوں یا گھنٹوں تک جاری رہتے ہیں۔ ڈپریشن کے مزمن یا شدید ہونے کی
ڈیل کارنیگی نے اپنی کتاب ”بے چینی چھوڑیے اور زندگی شروع کیجیے“ میں ڈپریشن کے خلاف بہت مفید مشورے دیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: پُل پر پہنچنے سے پہلے ہی اسے عبور نہ کیجیے، یعنی کسی کام کے ہونے سے پہلے ہی اس کے بارے میں پریشان نہ ہوجایئے۔ گرے ہوئے دودھ پر افسوس کا اظہار نہ کیجیے، یعنی جو کچھ ہوگیا، سو ہوگیا۔ سیٹی کو اس کی قیمت سے زیادہ میں نہ خریدیے، یعنی معاملات کو اتنی ہی اہمیت دیجیے جن کے وہ مستحق ہیں۔ ماضی اور مستقبل کے دروازے بند کردیجیے اور آج میں رہیے۔
قرآن کریم کے ذریعے روحانی علاج
قرآن کریم میں ڈپریشن سے پرہیز اور اس کا علاج دونوں پائے جاتے ہیں۔ ڈپریشن کے اہم ترین اسباب یہ ہیں:
-1 دل کی کھٹک اور بدگمانی۔
-2 انسانی امنگوں اور ان کے حصول میں حائل رکاوٹوں کے مابین کش مکش۔
ان دو اسباب کے پیچھے کئی عام اسباب بھی پوشیدہ ہوتے ہیں، جیسے ذاتی خلفشار، خاندانی انتشار، اخلاقی گراوٹ اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے تعلق کا نہ ہونا۔قرآن کریم ان تمام اسباب و علل کا احاطہ کرتا ہے، پرہیز سے بھی اور علاج کے ذریعے سے بھی۔
پرہیز: ہماری زندگی اور اس کے ارد گرد جو کچھ ہے سب اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے۔ دینِ اسلام نظامِ زندگی ہے۔ یہ صرف عبادات کی ادائیگی تک محدود نہیں ہے۔ اسلام ہماری زندگی، ہمارے تعلقات و معاملات سب کے بارے میں رہنمائی دیتا ہے۔ قرآن کریم ڈپریشن سے پرہیز کے صحت مندانہ ذرائع کی طرف ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ وہ ہمارے لیے ایسا ماحول فراہم کرتا ہے جس میں ہم پورے ثبات و اطمینان سے رہ سکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے غوروفکر کرنے اور عقل سے کام لینے کی ضرورت ہے۔’’کیا ان لوگوں نے قرآن پر غور نہیں کیا، یا دلوں پر ان کے قفل چڑھے ہوئے ہیں؟“ (محمد 24:47)
اگر ہم ڈپریشن کے پہلے سبب پر غور کریں جو خوف اور دل کی کھٹک ہے تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ مومن کیوں ڈرتا ہے اور کس سے ڈرتا ہے؟ وہ جانتا ہے، ہر چیز اللہ کے قبضے میں ہے۔ مومن کا فرض ہے کہ وہ ایسے وسائل و ذرائع اختیار کرے کہ خود کو بھوک، بیماری اور غربت سے محفوظ رکھ سکے۔ وہ ان اسباب کی فراہمی میں ہرگز کوتاہی نہ کرے، اور پھر معاملے کو اللہ پر چھوڑ دے۔ وہ ڈر اور خوف کے ساتھ زندگی نہ گزارے۔ رزق اول و آخر اللہ کے قبضے میں ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے: ’’کتنے ہی جانور ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے، اللہ ان کورزق دیتا ہے اور تمھارا رازق بھی وہی ہے۔“ (العنکبوت 29:60)
کیا انسان زندگی کے مصائب سے ڈرتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس کو جہاں تک اس کے بس میں ہو ان مصائب کے اسباب سے بچنا چاہیے اور پھر معاملہ اللہ کے سپرد کردینا چاہیے اور اپنی ذات کو خوف سے آزاد کردینا چاہیے۔ ارشادِ باری ہے: ’’کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو زمین میں یا تمھارے اپنے نفس پر نازل ہوتی ہو اور ہم نے اس کو پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب (یعنی نوشتۂ تقدیر) میں لکھ نہ رکھا ہو، ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان کام ہے۔“ (الحدید22:57)کیا وہ اپنی بیماری سے ڈرتاہے؟ اگر ایسا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنی استطاعت کی حد تک پرہیز اور علاج کرے اور معاملہ اللہ کے حوالے کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبان سے کہا ہے: ’’اور جب بیمار ہوجاتاہوں تووہی مجھے شفا دیتا ہے۔“(الشعراء 26:80)
دوسرا سبب داخلی کش مکش اور خواہشات و حدود کے مابین تنازع ہے۔ قرآن کریم مسلمانوں کی تربیت حق پر کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ حلال و حرام دونوں واضح ہیں۔ انسان کومخلوق کی ایسی فرماں برداری نہیں کرنی چاہیے جس سے خالق کی نافرمانی ہوتی ہو۔
’’حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتاہے جو بالکل سیدھی ہے۔ جو لوگ اسے مان کر بھلے کام کرنے لگیں انھیں یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑااجر ہے۔“ (بنی اسرائیل 9:17)
ڈپریشن سے نجات کا ایمانی پروگرام:
اللہ سے مسلسل رابطہ انسان کو روحانی علاج پر آمادہ کرتا ہے۔ انسان تنہائی، بے کاری اور روحانی خلا سے بچ جاتا ہے۔ اسے ذاتِ برتر سے تعلق کی نسبت حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ربط و تعلق قائم کرنے کے چار ذریعے ہیں:ڈپریشن کا ایک اور سبب انسان کا اپنی عملی زندگی میں افراط و تفریط سے کام لینا ہے۔ زندگی اعتدال و توازن سے ہی قائم رہتی ہے جیسے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے: ’’جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر، اور دنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر۔ احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر، اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا۔“ (القصص 28:77)
قرآن کریم نے ہمیں یہ بھی تعلیم دی ہے کہ ہم گناہ گار ہونے کے احساس کو ختم کریں، کیونکہ گناہ گار ہونے کا احساس ہی انسان کو غم، بے چینی اور تشویش سے دوچار رکھتا ہے۔ گناہ سرزد ہونے کی صورت میں فوراً توبہ کرنا چاہیے اور پھر یہ یقین کرلینا چاہیے کہ اللہ نے گناہ معاف فرما دیا ہے۔ ارشاد ہوا:’’جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھا چلتا رہے اس کے لیے میں بہت درگزر کرنے والا ہوں۔“ (طہٰ 20:82)
قرآن مجید ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے حسد نہ کریں۔ حسد نفسیاتی اضطراب پیدا کرتا ہے۔ اگر حسد کرنے والا یہ سمجھ لے کہ دینے والا اور عطا کرنے والا اللہ ہے تو وہ حسد سے باز رہے اور اپنے نفس کو حسد کی مشقت میں نہ ڈالے۔انسان کو چاہیے کہ اپنی صلاحیتوں سے بڑھ کر اپنے اوپر بوجھ نہ ڈالے۔ قرآن شریف ہمیں تلقین کرتا ہے کہ ہم اپنی آرزوئوں اور استطاعت میں توازن رکھیں











