بیجنگ:
چین نے 2014ء سے سنکیانگ کے میں جاری چھاپامار کارروائیوں میں کم از کم 630 ائمہ اور دیگر اسلامی مذہبی شخصیات کو حراست میں لیا یا قید میں رکھا ہے۔ یہ دعویٰ ایغور مسلمانوں کے حقوق کے لیے سرگرم ایک تنظیم کی تازہ تحقیق میں سامنے آیا ہے۔ ایغور ہیومن رائٹس پراجیکٹ کی رپورٹ کے مطابق تنظیم کو شواہد ملے ہیں کہ 18 ائمہ کی حراست کے دوران یا اس کے فوراً بعد ہلاکت ہوئی۔ ان میں سے کئی افراد پر انتہاپسندی پھیلانے یا امن خراب کرنے کے لیے مجمع جمع کرنے اور علاحدگی پسندی کو فروغ دینے جیسے الزامات لگائے گئے۔ تاہم ان کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ ان بے بنیاد الزامات کے پیچھے اصل جرم اسلام کی تبلیغ کرنا، مذہبی اجتماعات منعقد کرانا یا پھر صرف امام ہونا ہی ہیں۔ اس تنظیم نے کل 1046 ائمہ سے متعلق عدالتی دستاویزات، خاندانی گواہیوں اور سرکاری و نجی ریکارڈز کی مدد سے یہ رپورٹ تیار کی ہے۔ تمام کے تمام امام مبینہ طور پر کبھی نہ کبھی چینی حراست میں رہے ہیں، تاہم کئی معاملات کی تصدیق اس لیے ممکن نہیں تھی کہ سنکیانگ میں معلومات کے تبادلے پر چین کا سخت کنٹرول ہے۔ جن 630 کیسوں میں شواہد دستیاب ہو سکے، ان میں سے کم از کم 304 ائمہ کو تعلیم نو مراکز کے بجائے جیل بھیجا گیا۔ تعلیم نو کے مراکز چین کی جانب سے ایغور باشندوں کو اجتماعی حراست میں رکھنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان کیسوں میں عدالتی دستاویزات یا دیگر ثبوتوں سے ان کی قید کے دورانیے کا پتا لگایا جا سکتا ہے۔ ان سے سنکیانگ کے نظامِ انصاف کی سختی کا بھی پتا چلتا ہے۔ تقریباً 96 فیصد افراد کو کم از کم 5 سال اور 26 فیصد کو 20 سال یا زائد کی سزا سنائی گئی، جب کہ 14 افراد کو عمر قید بھی دی گئی۔ یہ ڈیٹابیس جو انسانی حقوق کے ایغور کارکن عبدالولی ایوب کی تحقیق ’’سنکیانگ وکٹمز ڈیٹابیس‘‘ اور ’’ایغور ٹرانزیشنل جسٹس ڈیٹابیس‘‘ پر مبنی ہے، کسی بھی طرح سے مکمل صورتحال کا احاطہ نہیں کرتا اور یہ صرف سنکیانگ میں ائمہ کی کل تعداد کے کچھ حصے کی نمایندگی کرتا ہے۔ مگر یہ سنکیانگ میں مذہبی شخصیات کو نشانہ بنائے جانے پر روشنی ڈالتا ہے اور اس سے ان الزامات کو تقویت ملتی ہے کہ چین ایغور افراد کو ہان چینی ثقافت میں ڈھالنے کے لیے ان کی مذہبی روایات کو توڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ چین نے ان الزامات سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ سنکیانگ میں اس کے تعلیم نو پروگرام کا مقصد ایغور اور دیگر مسلمان اقلیتوں سے انتہاپسندی کا خاتمہ ہے۔