انتباہ:یہ خبر آپ کے پرسکون دل کو بے چین کرسکتی ہے اسرائیلی بمباری میں نو بچے گنوانے والی فلسطینی ڈاکٹر کے شوہر بھی زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسے ہیں۔
ڈاکٹر آلاء النجار کے شوہر حمدی النجار خود بھی ایک ڈاکٹر تھے۔ تاہم وہ زیادہ تر گھر پر اپنے کلینک میں کام کرتے تھے۔23 مئی کو جس وقت اسرائیلی فوج نے ان کے گھر پر بمباری کی 40 سالہ ڈاکٹر حمدی النجار اپنی اہلیہ کو ہسپتال چھوڑ کر واپس لوٹے تھے۔ وہ اور ان کے بچے گھر میں موجود تھے۔
اس حملے میں ان کے نو بچے، جن کی عمریں چھ ماہ سے 12 سال کے درمیان تھیں، مارے گئے۔ تاہم وہ اور ان کا 12 سال کا بیٹا بچ گئے تھے۔ تاہم دونوں شدید زحمی تھے۔حمدی کو دماغی اور اندرونی چوٹوں کے ساتھ ہسپتال لایا گیا تھا لیکن سنیچر کے روز ان کی موت ہو گئی۔ڈاکٹر آلاء اور ان کا 11 سالہ بیٹا آدم، جو ابھی بھی ہسپتال میں ہے، اس خاندان کے زندہ بچ جانے دو ہی لوگ ہیں۔اسرائیل کی دفاعی افواج نے اس وقت کہا تھا کہ واقعے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔اس جوڑے نے خان یونس میں ایک نجی میڈیکل کمپاؤنڈ قائم کیا، جس کے سربراہ حمدی تھے۔
ان کے بھائی ڈاکٹر علی النجار نے انھیں ایک محبت کرنے والا باپ قرار دیا جو غریب مریضوں کا مفت علاج کرتے تھے۔ان کے بچے یحییٰ، راکان، رسلان، جبران، حوا، ریوان، سیدین، لقمان اور سدرہ اس حملے میں مارے گئے۔مقامی میڈیا کے مطابق سب سے بڑے بچے کی عمر 12 سال اور سب سے کم عمر چھ ماہ تھی۔
ناصر ہسپتال میں کام کرنے والی بلغاریہ کی ڈاکٹر ملینا اینجلووا چی نے گذشتہ ہفتے بی بی سی کو بتایا تھا کہ حملے میں حمدی کے دماغ، پھیپھڑوں، دائیں بازو اور گردے کو شدید چوٹیں آئیں۔ہسپتال میں کام کرنے والے برطانوی سرجن گریم گروم جنھوں نے زندہ بچ جانے والے بیٹے آدم کا آپریشن کیا، انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ‘ناقابل برداشت ظلم’ ہے کہ ان کی والدہ ماہر امراض اطفال آلاء جنھوں نے کئی سالوں تک بچوں کی دیکھ بھال میں گزارے تھے انھوں نے ایک ہی حملے میں اپنا تقریبا سب کچھ کھو دیا۔ان کا کہنا تھا کہ آدم کا بایاں بازو زخموں سے ڈھکا ہوا تھا اور انھیں جسم کے دیگر حصوں پر کئی زخم آئے تھے۔اس حملے کے بعد آئی ڈی ایف کہا تھا کہ ‘ایک طیارے نے خان یونس کے علاقے میں ایک خطرناک جنگی علاقہ تھا ایک عمارت میں موجود متعدد مشتبہ افراد کو نشانہ بنایا تھا۔ تاہم شہریوں کو ان کی حفاظت کے لیے پیشگی طور پر علاقے سے نکال لیا گیا تھا۔ غیر ملوث افراد کو نقصان پہنچنے کے دعوے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔’