فائزہ مشتاق
ماہِ صیام کے آخری عشرے کے آغاز سے ہی جہاں اس کے بچھڑنے کا خیال اداس کردیتا ہے، وہیں عیدالفطر کی آمد خوشی کا موجب ہوتی ہے۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس کی تیاریاں زور پکڑتی دکھائی دیتی ہیں۔
بوڑھا ہو یا جوان، خواتین ہوں یا مرد… غرض ہر شخص عید کی گہما گہمی میں گم نظر آتا ہے۔ عید کے دن جوں جوں قریب آتے ہیں گلی، محلے اور بازار کی رونقیں دگنی ہوجاتی ہیں۔ کپڑے، مہندی، چوڑیاں، جوتے… غرض ہر شے کی بہار ہوجاتی ہے۔ خواتین حسبِ استطاعت گھروں کو نئے انداز دینے میں جت جاتی ہیں۔ لیکن کورونا کے باعث حالات بدل گئے ہیں۔
وقت از خود تبدیلی کی علامت ہے۔ ہر ابھرتا دور نئی روایات کی نوید بھی ساتھ لاتا ہے۔ لمحہ لمحہ بدلتی زندگی رواج بدلنے کا باعث بھی بنتی ہے۔ جہاں روزمرہ زندگی کے مزاج بدلے وہیں غمی و خوشی کے ڈھنگ بھی تبدیل ہوگئے۔
اسی طرح عید کے تہوار سے جڑے بہت سے پُرمسرت رواج دَم توڑتے جا رہے ہیں، مگر کچھ نئی روایات نے بھی جنم لیا ہے جن کا تذکرہ قارئین کی دلچسپی کے لیے یہاں کیا جارہا ہے۔
عید تو اپنوں کے ساتھ ہی منائی جاتی ہے۔ اپنوں کو عید کی خوشی میں شریک کرنا ہی عید کا اصل لطف ہے۔ تقریباً ایک دہائی قبل عید کارڈز کے بغیر عید کا تصور نہ تھا۔ عید کارڈز خریدنا، لکھنا اور ارسال کرنا عام روایت تھی۔ ماہِ مبارک میں ہی اسٹالز پر دل کش اور رنگین عید کارڈز آویزاں کردیے جاتے۔ عید کارڈ منتخب کرنا وقت طلب اور دل چسپ سرگرمی ہوا کرتی۔ دور دراز علاقوں میں مقیم رشتے داروں کو خاص طور پر بذریعہ ڈاک کارڈ ارسال کیے جاتے تھے۔
یہی نہیں بلکہ عید کارڈز پر دیدہ زیب ڈیزائن کے ساتھ ساتھ عید کی مناسبت سے اشعار لکھنا بھی بڑی دل چسپی کا کام ہوا کرتا تھا۔
عید کارڈز کے تبادلے کا یہ سلسلہ چاند رات تک جاری رہتا۔ فی زمانہ عید کارڈز کا رواج تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ موبائل اور سوشل نیٹ ورک نے عید کارڈز کی جگہ لے لی۔ اب ڈاک خانوں کی طویل قطاروں کے بجائے موبائل نیٹ ورک نے کام آسان کردیے ہیں۔ عید کے روز برقی پیغامات کا تانتا بندھا دکھائی دیتا ہے۔ ٹیکنالوجی نے اپنے پیاروں سے جذبات کا اظہار کم خرچ، آسان اور پُرکشش بنادیا۔ غرض عید پر مبارک باد دینے کا رواج گو کہ اب بھی قائم ہے مگر ذریعہ تبدیل ہوچکا ہے۔
آپس میں تحائف کا تبادلہ محبتوں کو پروان چڑھانے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ دوردراز علاقوں میں رہائش پذیر پیاروں کو یاد رکھنا میٹھی عید کی میٹھی روایتوں میں سے ہے۔ عیدالفطر کے قریب آتے ہی پارسل اور منی آرڈرز کا سلسلہ شروع ہوجایا کرتا۔ بیرونِ شہر مقیم عزیزوں کے لیے خاص طور پر عید سے کئی روز قبل ہی عیدی کا اہتمام کیا جاتا۔ پارسل بطور عیدی بھجوانا تقریباً ہر پردیسی کا معمول ہوا کرتا۔ عید سے دو روز قبل قریبی عزیز کی جانب سے موصول شدہ منی آرڈر گویا عید کا سماں ہی باندھ دیتا۔ یوں میلوں فاصلے پر بسنے والے اقربا دور ہوتے ہوئے بھی عید کی خوشی میں شریک ہوجاتے۔ مگر اب شاذونادر ہی یہ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ وقت اور مہنگائی نے سب کچھ یکسر بدل کر رکھ دیا۔ رہی سہی کسر وبائی دور نے پوری کردی۔
خوب صورت نظر آنا ہر انسان کی بنیادی خواہش ہوتی ہے۔ عید نزدیک آتے ہی جہاں حجام کے پاس قطاریں لگ جانا عام تھا، وہیں خواتین بھی زلفوں کی تراش خراش اور جلد کو چمکانے کے طریقوں کے ذریعے اپنی دل کشی میں اضافے کی تگ و دو کرتی دکھائی دیتیں۔ گھروں میں ہی مہندی لگوائی جاتی، اس کے لیے محلے میں خاص طور پر دو، تین گھر مختص ہوتے جہاں کی خواتین رات گئے تک بلامعاوضہ مہندی کے خوب صورت شاہکاروں سے محلے بھر کی بچیوں اور خواتین کے ہاتھ سجاتیں۔ شاذ و نادر ہی کوئی معاوضے پر پارلر سے مہندی لگوانے کو ترجیح دیتا۔
بدلتے وقت نے جہاں سیلون اور بیوٹی پارلر کا ٹرینڈ بڑھایا، وہیں خوب صورتی کے معیارات بھی بدل گئے۔ نت نئے فیشن کے بال تراشنا، بالوںکو مختلف طرزمیں رنگ دینا، اور فیشل اور فیس ماسک کے بغیر اب عید کا تہوار ادھورا سمجھا جاتا ہے۔ کورونا کی وبا سے قبل تو چاند نظر آتے ہی سیلون اور بیوٹی پارلرز مردوخواتین سے بھر جاتے۔ حقیقتاً تِل دھرنے کی جگہ نہ ہوتی۔ یہی نہیں بلکہ رات گئے تک نہ صرف اپنی باری کا انتظار کیا جاتا بلکہ منہ مانگی قیمت پر شخصیت نکھارنا عید کے نئے انداز و اطوار میں لازمی عنصر بن گیا ۔
گو کہ گزشتہ دہائی کے آغاز پر عیدالفطر کی میٹھی روایات اختتام پذیر ہوگئیں، مگر مل جل کر عید منانا اور اس موقع پر اپنوں سے جذبات کا اظہار کرنا آج بھی تہوار کی رونق ماند نہیں پڑنے دیتا، اور یہی اس کا حُسن بھی ہے۔