فرانس میں پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے شمالی افریقی نژاد نوجوان کی ہلاکت اور اسکی تدفین کے بعد بھی پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ اور یہ مظاہرے اور احتجاجات اب فرانس کے چھوٹے قصبوں تک پہنچ رہے ہیں۔
عائد آف امریکہ کی رپورٹ کے مطابق فرانس کے ایک خوبصورت قصبے کیو سارک کے مئیر 100 یا کچھ زیادہ لوگوں کی پارٹی میں ایک خوشگوار شام گزار کر اپنے گھر جارہے تھے تو ان کے فون کی گھنٹی بجی اور انہیں پتہ چلا کہ شہری بد امنی جو پیرس کے مضافات میں سینکڑوں کلومیٹر دور ایک نوجوان کی پولیس کی شوٹنگ میں ہلاکت کے بعد شروع ہوئی تھی، اب ان کے قصبے کے پرسکون ماحول تک بھی پہنچ گئی ہے۔
مئیر نے بتایا کہ تیزی سے کئے جانے والے "وار کرو اور فرار ہو جاؤ’ کےانداز کے ایک حملے میں بظاہر چار افراد پر مشتمل گروپ نے , ڈی لاگیر روڈ پر مقامی پولیس کی ایک بیرک پر طاقتور آتشبازی سے حملہ کیا ۔ اس کے دھاتی شٹر مڑ گئے اور وہاں صنوبر کے درختوں کو آگ لگا دی گئی۔
ایسو سی ایٹڈ پریس نے فرانس کے ان شہروں، قصبوں اور دیہات کی ایک فہرست مرتب کی ہے، جہاں عہدیداروں نے بد امنی کی اطلاعات دی ہیں۔ اس فہرست میں297نام شامل ہیں۔ اور اس میں انگریزی کے حروف تہجی میں شامل یو، ایکس اور زی کے علاوہ حروف تہجی کے ہر حرف کی نمائندگی موجود ہے۔
ان میں پیرس کے مغرب میں دریائے سین کے موڑ پر واقع قصبے آچرس سے لیکر، جہاں آتشزدگی اور تباہی کی وجہ سے ٹاؤن ہال کو بند کرنے پر مجبور ہونا پڑا، اوٹز تک کے قصبے اور شہر شامل ہیں جو جرمنی اور لکسمبرگ سے ملنے والی فرانس کی مشرقی سرحد کے قریب واقع ہیں ۔ وہاں ایک میکڈانلڈ کو نظر آتش کردیا گیا۔ بھڑکتے ہوئے شعلوں کی ویڈیوز،سوشل نیٹ ورکس پر شئیر کی گئیں۔
اسی قسم کے واقعات کی فرانس کے دوسرے شہروں اور قصبوں سے بھی اطلاعات ملی ہیں۔ لیکن بہرحال فرانس کے سارے ہی بڑے قصبوں میں صورت حال زیادہ بری نہیں رہی۔