اتواریہ : شکیل رشید*
جب سے راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ ( آر ایس ایس ) کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے ، ہم سب کے وزیر اعظم نریندر مودی کو ، اپنی عمر کے 75 سال پورے کرنے کے باوجود ، حکومت کی گدّی پر بیٹھنے کی چھوٹ دی ہے ، اُن کی زبان سے سنگھ کے لیے رَس ٹپکنے لگا ہے ، اور وہ مختلف اسٹیجوں سے کبھی سنگھ کے بانی کیشو بلی رام ہیڈگیوار کی تو کبھی اس کے سر سنگھ چالک مادھو سداشیو گولوالکر کی اور کبھی سنگھ کے ’ کاموں ‘ کی تعریف میں قصیدے پڑھتے اور سنگھی ایجنڈے کو پوری تیزی سے آگے بڑھاتے نظر آ رہے ہیں ۔ مثلاً پی ایم یہ جو ’ گھس پیٹھیے ‘ کی ڈفلی بجا رہے ہیں ، درحقیقت آر ایس ایس کے ایجنڈے کی تکمیل کی سمت میں ہی اُن کا ایک قدم ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ آر ایس ایس کو نظریاتی خوراک دینے والے ’ ہندو مہا سبھا ‘ کے قائد ونائک دامودر ساورکر کا نعرہ تھا کہ : ’’ شہریت مذہب کی بنیاد پر دی جائے‘‘۔ اور مودی حکومت نے اسی بنیاد پر شہریت قانون سے مسلمانوں کو باہر رکھا ہے ۔ شہریت کا متنازعہ قانون آر ایس ایس کا وہ ایجنڈا ہے، جسے ہیڈگیوار نے عملی شکل دی اور اس کے بعد سنگھ کے دیگر بانیان اس ایجنڈے کو نہ صرف سنوارتے رہے بلکہ اسے عملی شکل دینے کے لیے کوشاں بھی رہے۔ آج سنگھ اور بی جے پی کا وہ حکمران ٹولہ جو شہریت قانون کو لاگو کرنے کے لیے حرکت میں ہے ، وہ دراصل مذکورہ ایجنڈے کو ہندوستانی شہریوں پر تھونپنے کی ایک کوشش ہے۔ مودی اور امیت شاہ آر ایس ایس کے بانیان کا ایجنڈا مسلط کرنے کے لیے تمام تر سرکاری وسائل و ذرائع کا بشمول مقننہ ، انتظامیہ ، عدلیہ ، صحافت اور الیکشن کمیشن کا اندھادھند استعمال کر رہے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ مودی جِن کا گُن گان کر رہے ہیں ، ہندوستان کی آزادی کی لڑائی میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ کچھ پہلے ایک سینیر صحافی نیلانجن مکھوپادھیائے کی کتاب The RSS: Icons of The Indian Right [صفحات: ۴۹۹، پبلشرز ٹرنکوبار ] پڑھی تھی ، اس میں مصنف نے جو کچھ لکھا ہے ، اسے مضبوط شہادتوں اور مسکت دلائل سے ثابت بھی کیا ہے ۔ پہلے سرسنگھ چالک ہیڈگیوار کے باب میں مصنف نے اُن کی اس بات پر کہ تمام ہندستانی بلالحاظ مذہب ’ ہندو ‘ ہی ہیں ، زور دیتے ہوئے اسے ’ گھرواپسی‘ تحریک کی بنیاد قرار دیا ہے ۔ یہ تحریک لوگوں کو ’ہندو دھرم‘ میں داخل کراتی ہے ، اور جو داخل نہ ہو ، وہ ’ غیر‘ کہلاتا ہے۔ ہیڈگیوار کا یہی فلسفہ تقسیم ہند کے بعد ’ ملکی ‘ اور ’ غیرملکی ‘ میں بدل دیا گیا تھا ۔ اب موجودہ سر سنگھ چالک موہن بھاگوت یہی بات کہتے نظر آ رہے ہیں ۔ سب جانتے ہیں کہ ہیڈگیوار اور ساورکر میں بڑی قربت تھی ، ساورکر کا یہ عقیدہ تھا کہ ’’ نظریاتی طور پر ، قومیت اور شہریت کو صرف شہری ہونے کی نہیں بلکہ اس کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر طے کیا جاسکتا ہے‘‘۔ اور اسی بنیادپر شہریت قانون سے مسلمانوں کو باہر رکھا گیا ہے۔ آر ایس ایس کے دوسرے سر سنگھ چالک گولوالکر تقسیم ہند کے بعد جو مسلمان ہندوستان میں رہ گئے تھے انہیں ’بچے کھچے‘ کہتے تھے اوراس بات پر زور دیتے تھے کہ ہند و پاک کے درمیان ہندوؤں اور مسلمانوں کے تبادلے کا منصوبہ بنایا جائے تاکہ جو ’ بچے کھچے ‘ مسلمان ہیں ، انہیں بھارت سے نکالا جاسکے۔ گزشتہ دنوں ایک خاتون ٹی وی اینکر نے اس ایجنڈے کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کی تھی ۔ سنگھی نظریہ ساز شیاما پرشاد مکھرجی بھارتیہ جن سنگھ کے جنرل سیکرٹری آشوتوش لہری کی اس ہدایت پر نثار تھے : ’’ اب اُن مسلمانوں کو جو ’ ہندو استھان ‘ میں رہتے ہیں ہم یہاں سے نکال باہر کرنا چاہتے ہیں ، کیونکہ اگر وہ رہے تو غداری ، تخریب کاری اور وطن دشمنی کریں گے ‘‘۔ تو یہ ’ گھس پیٹھیے ‘ کا شور سنگھی نظریہ سازوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے ہے ، اور ہمارے پی ایم اسی لیے بار بار ’ گھس پیٹھیے ‘ کی ڈفلی بجا رہے ہیں ۔
*مضمون نگار ممبئی اردونیوز کے ایڈیٹر ہیں











