نئی دہلی ؍یکم مئی ؍ یہاں ایران کلچرل ہائوس میں واقع دفتر نماینده رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران، ڈاکٹر عبدالمجید حکیم الہٰی نے صحافیوں سے ایک بے تکلف خصوصی ملاقات کی۔ اس دوران انھوں نے جمہوریہ اسلامی ایران اور جمہوریہ ہندوستان کے درمیان پائے جانے والے دیرینہ رشتوں کا خصوصی ذکر کیا ۔انھوں نے کہا کہ مذکورہ بالا دونوں ملکوں کے علمی ، ادبی ، ثقافتی ،اقتصادی اور سفارتی رشتے بہت قدیمی ہیں ۔

انھوں نے کہا کہ بہت ساری چیزوں میں یکسانیت ہے اور یہ ایسا ہے کہ جو دوسرے ملک میں نہیں ہے ۔انھوں نے کہا کہ یہاں آنے کے بعد اپنے پن کا احساس ہوتا ہے۔ہندوستان ایک ایسی سرزمین ہے جہاں اپنے وطن جیسی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر الہٰی نے کہا کہ آج دنیا کو اس بات کا علم ہو چکا ہے کہ صحافت اور صحافی کی اہمیت و افادیت کیا ہے۔انفارمیشن ٹیکنالاجی کے اس دور میں شعبہ صحافت کے تعلق سے نہ صرف ایک شعبہ بلکہ پوری پوری یونیورسٹیاں قائم کی جا رہی ہیں ۔انھوں نے کہا کہ صحافی کا کام صرف رپورٹنگ نہیں ہے بلکہ حالات پر تبصرہ و تجزیہ کرنا بھی ہے ۔انھوں نے کہا کہ صحافی کی ایک خبر کسی حکومت کو بچا بھی سکتی ہے اور اس کو گرا بھی سکتی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ شیئر بازار محض ایک خبر سے دھڑام ہو جاتے ہیں اور ایک خبر سے اٹھ بھی جاتے ہیں ۔انھوں نے کہا کہ پوری دنیا کی لگام اب صحافیوں کے ہاتھ میں ہے ۔ نمائندہ ولی وفقیہ نے کہا کہ جہاں ایک طرف صحافیوں اور صحافت کی اہمیت و افادیت ہے وہیں ان کے سامنے بڑے چینلجز بھی ہیں ۔ ان پر سیاسی اور اقتصادی دبائو بھی بہت ہے ۔ ا س سے کیسے بچنا ہے اور اپنی ذمہ داریوں کو کیسے ادا کرنا ہے یہ بہت اہم ہے ۔ انھوں نے کہا کہ ایک صحافی بوسیدہ اور معمولی زندگی گزارتا ہے کیونکہ اس کو معلوم ہے کہ وہ بہت بڑی خدمات انجام دے رہا ہے ۔انھوں نے کہا کہ ایک اچھے صحافی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایماندار ہو ، صادق ہو ، تخلیق کار ہو ، تجزیہ نگار ہو ۔وہ غیر جانبدار ہو اور تعصب کو الگ رکھ کر صحافت کرے ۔نمائندہ ولی فقیہ عبدالمجید حکیم الہٰی نے کہا کہ صحافی کا کام ذہن سازی اور انسان سازی بھی ہے ۔وہ سماج کے لیے مشعل راہ ہوتا ہے ۔ عام انسان تو اندھا ہوتا جس کو راہ دکھانے کا کام صحافی کرتا ہے ۔واضح رہے کہ عبدالمجید حکیم الہٰی نے آیت اللہ مہدی مہدوی پور کی سبکدوشی کے بعدحال ہی میں دفتر رہبر معظم کی ذمہ داری سنبھالی ہے ۔آپ کئی یونیورسٹیوں کی مجلس عاملہ کے رکن ہیں ۔ سابق وائس چانسلر بھی رہے ہیں۔ دنیا کے ۳۵؍ممالک میں اپنا تحقیقی خطبہ پیش کر چکے ہیں ۔ایران حکومت کی جانب سے کئی اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔کئی کتابوں اور ۴۰؍تحقیقی مقالات کے مصنف بھی ہیں۔ درس و تدریس کی خدمات بھی برسوں تک انجام دی ہے۔ہندوستان کے لوگوں سے ملاقات کرنے کے بعد ان کا کہنا ہے کہ یہاں کے لوگ لاجواب ہیں ۔ان میں انکساری اور محبت کوٹ کوٹ کر پائی جاتی ہے۔ادب و اخلاقیات ان کی زندگی کا جز معلوم ہوتا ہے ۔