سنبھل کی جامع مسجد سروے معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ سے مسلم فریق کو بڑا جھٹکا لگا ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے مسلم فریق کی سول نظرثانی کی عرضی کو مسترد کر دیا ہے۔ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ سروے کا معاملہ سنبھل کی ضلع عدالت میں چلے گا۔ جسٹس روہت رنجن اگروال کی سنگل بنچ نے مسلم فریق کے دلائل کو مسترد کرتے ہوئے فیصلہ سنایا۔
••تنازعہ کا پس منظر
یہ مقدمہ 19 نومبر 2024 کو شروع ہوا جب کچھ عرضی گزاروں نے سول جج (سینئر ڈویژن) کورٹ، سنبھل میں ایک عرضی دائر کی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ مسجد 1526 میں ایک قدیم ہری ہر مندر کو منہدم کر کے بنائی گئی تھی، جو بھگوان وشنو کے آخری اوتار ‘کالکی’ کے لیے وقف تھا۔ عدالت نے مسجد کے سروے کا حکم دیا تھا۔ اس حکم کے خلاف مسجد انتظامیہ کمیٹی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ 29 اپریل 2025 کو سپریم کورٹ نے مسجد کمیٹی کو ہائی کورٹ سے رجوع کرنے اور ریاستی حکومت کی اسٹیٹس رپورٹ پر دو ہفتوں کے اندر جواب داخل کرنے کی ہدایت دی تھی۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ متنازع کنواں مسجد کے احاطے کے باہر واقع تھا۔
••ہائی کورٹ کی کارروائی
ہندو فریق کی جانب سے وکیل گوپال شرما نے کہا کہ ہم نے 19 نومبر 2024 کو درخواست دائر کی تھی جس کے بعد عدالت نے سروے کا حکم دیا۔ سروے دو مرحلوں میں مکمل کیا گیا۔ مسجد والے سپریم کورٹ گئے، جہاں سے انہیں ہائی کورٹ جانے کو کہا گیا۔انہوں نے مزید کہا کہ اہم قانونی سوال یہ تھا کہ کیا سول جج (سینئر ڈویژن)، سنبھل کے پاس سروے کا حکم دینے کا دائرہ اختیار ہے، اور کیا کیس کی سماعت وہیں کی جائے گی یا کسی اور عدالت کو منتقل کی جائے گی۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد اب یہ واضح ہوگیا ہے کہ کیس کی سماعت صرف سنبھل ڈسٹرکٹ کورٹ میں ہوگی اور سروے کا عمل وہیں آگے بڑھے گا۔