نئی دہلی :(ایجنسی)
جولائی میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے این ڈی اے اتحاد کی قیادت کرنے والی بی جے پی نے جھارکھنڈ کی سابق گورنر دروپدی مرمو کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ سابق مرکزی وزیر یشونت سنہا اپوزیشن امیدوار کے طور پر دروپدی مرمو کے سامنے ہیں۔
64 سالہ دروپدی مرمو اگر صدر کے عہدے کے لیے منتخب ہوتی ہیں تو وہ ہندوستان کی صدر بننے والی پہلی قبائلی خاتون ہوں گی۔
یہ جاننا ضروری ہوگا کہ دروپدی مرمو اور یشونت سنہا کون ہیں؟ صدارتی انتخاب کے لیے ووٹنگ 18 جولائی کو ہوگی جب کہ نتائج 21 جولائی کو آئیں گے۔ نامزدگی کی آخری تاریخ 29 جون ہے۔
دروپدی مرمو
دروپدی مرمو نے بھونیشور کے راما دیوی ویمن کالج سے بی اے کیا ہے۔ دروپدی مرمو نے 1979 سے 1983 تک حکومت اڈیشہ کے محکمہ آبپاشی اور توانائی میں جونیئر اسسٹنٹ کے طور پر کام کیا۔ انہوں نے 1994 سے 1997 تک رائرنگ پور میں سری اروبندو انٹیگرل ایجوکیشن سینٹر میں بطور استاد بھی کام کیا ہے۔
دروپدی مرمو نے 1997 میں رائرنگ پور میں کونسلر کا انتخاب جیت کر اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا اور وائس چیئرپرسن بھی بنیں۔ وہ 1997 میں بی جے پی کے ایس ٹی مورچہ کی ریاستی نائب صدر بنیں۔
سال 2000 سے 2004 تک، وہ رائرنگ پور سیٹ سے ایم ایل اے رہیں اور اس دوران وہ بی جے ڈی-بی جے پی حکومت میں ٹرانسپورٹ اور کامرس سمیت کئی وزارتوں کے آزاد چارج کے ساتھ وزیر رہیں۔
سال 2002 سے 2009 تک، دروپدی مرمو بی جے پی کے ایس ٹی مورچہ کی نیشنل ایگزیکٹو کی رکن تھیں۔ 2004 سے 2009 تک وہ رائرنگ پور سیٹ سے ایم ایل اے بھی رہیں۔ وہ 2006 سے 2009 تک اڑیشہ بی جے پی ایس ٹی مورچہ کی صدر تھیں۔
2010 میں وہ اڑیشہ کے میور بھنج مغربی ضلع میں بی جے پی کی صدر بنیں اور 2013 میں اس عہدے پر دوبارہ منتخب ہوئیں اور اپریل 2015 تک رہیں۔ 2015 میں انہیں جھارکھنڈ کا گورنر بنایا گیا۔
ان ناموں پر بھی ہوئی تھی بات
این ڈی اے کی طرف سے ممکنہ امیدواروں کی فہرست میں دروپدی مرمو کے علاوہ کیرالہ کے گورنر عارف محمد خان، تمل ناڈو کے گورنر تملسائی سندرراجن کے نام نمایاں طور پر سامنے آرہے ہیں تھے۔ اس کے علاوہ کرناٹک کے گورنر اور دلت لیڈر تھاورچند گہلوت، لوک سبھا کی سابق اسپیکر سمترا مہاجن، چھتیس گڑھ کی گورنر انوسویا یوکی، اڑیشہ کے گورنر جوال اوراون بھی ممکنہ امیدواروں میں شامل تھے۔
یشونت سنہا
دروپدی مرمو کے سامنےاپوزیشن کے امیدوار یشونت سنہا اٹل بہاری واجپئی اور چندر شیکھر کی حکومتوں میں وزیر رہ چکے ہیں۔ یشونت سنہا اصل میں پٹنہ سے ہیں اور ان کا سیاسی کیریئر تقریباً 4 دہائیوں پر محیط ہے۔ یشونت سنہا آئی اے ایس آفیسر رہ چکے ہیں اور جے پرکاش نارائن کی تحریک سے متاثر ہو کر انہوں نے اپنی انتظامی سروس کی نوکری چھوڑ دی اور 1984 میں جنتا پارٹی میں شامل ہو کر اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا تھا۔
یشونت سنہا کو جنتا پارٹی نے 1984 میں جھارکھنڈ کی ہزاری باغ سیٹ سے میدان میں اتارا تھا، لیکن وہ تیسرے نمبر پر آئے تھے۔ 1986 میں جنتا پارٹی نے انہیں قومی ترجمان بنایا اور 1988 میں وہ پہلی بار راجیہ سبھا پہنچے۔ 1989 میں جنتا دل کے قیام کے بعد یشونت سنہا کو پارٹی کا قومی جنرل سکریٹری بنایا گیا۔
جنتا پارٹی نے 1989 کے عام انتخابات میں 143 سیٹیں جیتیں اور وی پی سنگھ کی قیادت میں مرکز میں حکومت بنائی۔ اس حکومت کو بی جے پی اور بائیں بازو کی جماعتوں کی بھی حمایت حاصل تھی۔ اپنی سوانح عمری میں یشونت سنہا نے کہا ہے کہ وی پی سنگھ نے انہیں اس حکومت میں وزیر بننے کی پیشکش کی تھی لیکن انہوں نے وزیر بننے سے انکار کر دیاتھا۔
سال 1990 میں جنتا دل کی چندر شیکھر حکومت کے دوران ملک کی اقتصادی حالت ابتر ہوگئی تھی۔ اس حکومت میں یشونت سنہا کو وزیر خزانہ بنایا گیا تھا۔ یشونت سنہا 1996 میں بی جے پی میں شامل ہوئے اور پارٹی کے قومی ترجمان بنے ۔
اڈوانی کے قریب
یشونت سنہا کو بی جے پی میں سابق نائب وزیر اعظم ایل کے اڈوانی کا قریبی سمجھا جاتا تھا۔ یشونت سنہا کو 1999 میں بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت میں وزیر خزانہ بنایا گیا تھا۔ این ڈی اے کو 2004 کے لوک سبھا انتخابات میں شکست ہوئی تھی اور یشونت سنہا بھی ہزاری باغ سیٹ سے ہار گئے تھے۔
لیکن بی جے پی نے یشونت سنہا کو ترقی دے کر قومی نائب صدر بنایا اور 2009 کے لوک سبھا انتخابات میں وہ ہزاری باغ سیٹ سے جیت گئے۔
یشونت سنہا نے 2021 میں ترنمول کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور انہیں پارٹی کا قومی نائب صدر بنایا گیا۔ یشونت سنہا گزشتہ کئی سالوں میں مودی حکومت کے کئی فیصلوں پر کھل کر تنقید کرتے رہے ہیں۔
این سی پی سربراہ شرد پوار، جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کے بعد مہاتما گاندھی کے پوتے گوپال کرشن گاندھی نے صدارتی انتخاب میں اپوزیشن کا امیدوار بننے سے انکار کر دیاتھا۔