مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
جن حقیقتوں پر ایمان لانا ضروری ہے، ان میں ایک ’’ غیب‘‘ بھی ہے، سورہ بقرہ کے بالکل شروع میں اہل تقویٰ کی تعریف میں سب سے پہلے غیب پر ایمان کا ذکر فرمایا گیا ہے، الذین یؤمنون بالغیب (بقرہ: ۳) غیب میں وہ چیزیں بھی شامل ہیں، جو اس وقت ہماری آنکھوں سے اوجھل ہیں، جیسے: جنت، دوزخ اور عالم آخرت میں پیش آنے والے احوال، اور وہ غیبی نظام بھی شامل ہے، جو اللہ کے حکم سے اس کائنات میں جاری وساری ہے، دنیا کا عام نظام یہ ہے کہ جب کوئی سبب پایا جاتا ہے تو اس کا نتیجہ وجود میں آتا ہے، آگ ایک سبب ہے اور جلنا اس کا نتیجہ ہے، جہاں آگ لگائی جائے گی، وہاں جلنا بھی پایا جائے گا، لیکن اللہ تعالیٰ کا غیبی نظام یہ ہے کہ بعض اوقات سبب پایا جاتا ہے، مگر نتیجہ ظاہر نہیں ہوتا، انبیاء کرام کے معجزات میں یہی کیفیت ہوا کرتی تھی، سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دھکتی ہوئی آگ میں ڈالا دیا گیا ؛ لیکن وہ جلانے کی بجائے خوشگوار ٹھنڈک اور سلامتی کا ذریعہ بن گئی (انبیاء: ۶۹) اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ سبب کے بغیر اس سے پیدا ہونے والا نتیجہ وجود میں آجاتا ہے، انبیاء کرام کے معجزات میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں،اس غیبی نظام کے تحت نتائج حاصل کرنے کا ذریعہ ہے: دعاء اور اللہ تعالیٰ سے رجوع؛ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دعاء میں اتنی تاثیر ہے کہ وہ فیصلوں کو بدل دیتی ہے: لا یرد القضاء إلا الدعاء (ترمذی عن سلمان فارسی، حدیث نمبر: ۲۱۴۹)
اس وقت کورونا کی شکل میں جو عالمگیر مصیبت آئی ہوئی ہے، اس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ے، اور ہر شخص اس کے تصور سے سہما ہوا ہے، قرآن مجید نے قیامت کا جو نقشہ کھینچا ہے کہ لوگ شدت مصیبت کی وجہ سے قریب ترین رشتوں کو فراموش کر دیں گے، باپ اپنی اولاد سے اولاد اپنے والدین سے اور شوہر وبیوی ایک دوسرے سے راہ فرار اختیار کرنا چاہیں گے، لوگ اس کی ایک جھلک اِس بیماری میں دیکھ رہے ہیں، تشویشناک بات یہ ہے کہ اب تک خاص اس بیماری کی کوئی دواء ایجاد نہیں ہو پائی ہے، پس یوں تو ہر مصیبت میں بندے کو اپنے خالق ومالک سے رجوع کرنا چاہئے؛ لیکن ایسے لا علاج امراض کا اصل علاج یہی ہے کہ دروازۂ غیب پر دستک دی جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسے بہت سے امراض میں مادی دواؤں کی رہنمائی فرمائی ہے اور حدیث کی کتابوں میں ’’ ابواب الطب‘‘ کے نام سے وہ ہدایات جمع کر دی گئی ہیں، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات اور دعاؤں کی بھی تلقین فرمائی ہے، جو انسان کے لئے اللہ کے حکم سے حفظ وامان کا ذریعہ بنتی ہیں، یہ ان بیماریوں میں بھی کام آتی ہیں جو آچکی ہیں اور ان بیماریوں میں بھی جن کے آنے کا خطرہ ہے؛ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو مصیبت آچکی ہے، دعاء ان میں بھی کام آتی ہے، اور جو اَبھی نہیں آئی ہے، ان میں بھی کام آتی ہے، إن الدعاء ینفع مما نزل ومما لم ینزل (سنن ترمذی، ابواب الدعوات، حدیث نمبر: ۳۵۴۸) ؛ اس لئے موجودہ وبائی صورت حال میں ان اذکار اور دعاؤں کے پڑھنے کا خصوصی اہتمام کرنا چاہئے، جن کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دفعِ مصائب کے لئے تلقین فرمائی ہے، اسی مناسبت سے یہاں چند نبوی ہدایات نقل کی جاتی ہیں:
۰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ فاتحہ کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ اس میں ہر بیماری سے شفاء ہے: فی فاتحۃ الکتاب شفاء من کل داء (سنن دارمی، حدیث نمبر: ۲۴۱۳) ؛ اس لئے زیادہ سے زیادہ سورہ فاتحہ پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے، بالخصوص صحت وشفاء کی نیت سے صبح وشام یہ سورہ پڑھی جائے تو ان شاء اللہ، اللہ کی طرف سے حفاظت ہوگی۔
۰ حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جو شخص مصیبت کے وقت آیۃ الکرسی اور سورہ بقرہ کی آخری آیات پڑھے گا، اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرمائیں گے، (عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی، حدیث نمبر: ۳۴۳) ؛ اس لئے دن اور رات کے آغاز پر آیۃ الکرسی اور اس کے ساتھ سورہ بقرہ کی آخری آیات کی تلاوت کا اہتمام کرنا چاہئے۔
۰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر تم صبح وشام تین تین مرتبہ قل ھو اللّہ أحد، قل أعوذ برب الفلق اور قل أعوذ برب الناس کی سورتیں پڑھ لو تو یہ تمہارے لئے ہر چیز کے مقابلہ کافی ہے (ابو داؤد، حدیث نمبر: ۵۰۸۲) یہ سورتیں مختصر بھی ہیں اور تقریباََ ہر چھوٹے بڑے کو یاد بھی رہتی ہیں؛ اس لئے پابندی کے ساتھ اس کو پڑھا جائے اور گھر کے تمام لوگوں سے پڑھوایا جائے۔
۰ متعدد حدیثوں میں جس دعاء کا خاص طور پر ذکر آیا ہے، وہ ہے: لا الٰہ إلا أنت سبحانک إنی کنت من الظالمین، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ کسی شخص پر کوئی مصیبت یا دنیا کی کوئی بلا آجائے اور وہ اس دعاء کو پڑھے تو وہ مصیبت دور ہو جائے گی، (سنن کبریٰ للنسائی، حدیث نمبر: ۴۱۶) جب حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی نے نگل لیا تھا تو انھوں نے یہی دعاء پڑھی تھی، جس کا خود قرآن مجید میں ذکر ہے، اس دعاء کی قبولیت اور تاثیر کا امت کے صالحین نے ہمیشہ تجربہ کیا ہے، اگر صبح وشام سو بار ان کو پڑھا جائے تو ان شاء اللہ وباء سے حفاظت ہوگی۔
۰ سورہ کہف کے بارے میں مروی ہے کہ جس نے جمعہ کے دن سورہ کہف کی تلاوت کی، وہ اگلے جمعہ تک محفوظ رہے گا: من قرأ الکھف فی یوم الجمعۃ حفظ من الجمعۃ إلی الجمعۃ (شعب ایمان، حدیث نمبر: ۲۲۴۹) جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کا معمول تو ہمیشہ رکھنا چاہئے؛ لیکن موجودہ حالات میں خاص طور پر اس کی پابندی ہونی چاہئے۔
۰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ سورہ یاسین ایسی بابرکت سورہ ہے، جس سے انسان کی ہر ضرورت پوری ہو سکتی ہے؛ اسی لئے مصائب اوردشواریوں میں مشائخ کے یہاں سورہ یاسین کی تلاوت کا معمول رہا ہے، اس پر بھی عمل ہونا چاہئے۔
۰ درود شریف ایسا ذکر ہے، جو اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا سبب بنتا ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتے ہیں: من صلیٰ علیّ واحدۃ صلی اللہ علیہ عشرا (مسلم، حدیث نمبر: ۴۰۸) رحمت میں مصیبتوں ، بلاؤں ، وباؤں اور بیماریوں سے محفوظ رہنا بھی شامل ہے؛ اسی لئے مصیبت کے مواقع پر درود شریف کی خاص طور پر کثرت کرنی چاہئے اور موجودہ حالات میں اس کا زیادہ سے زیادہ اہتمام ہونا چاہئے۔
۰ انسان پر جو مصیبتیں آتی ہیں، وہ زیادہ تر اس کی بد اعمالیوں کا نتیجہ ہوتی ہیں، وہ اپنے خالق ومالک کو ناراض کر لیتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض اوقات دنیا ہی میں کسی مصیبت کی شکل میں اس کی پکڑ ہو جاتی ہے، اللہ کی ناراضگی کو دور کرنے اور اپنے خالق ومالک کو راضی کرنے کا طریقہ استغفار یعنی اپنے گناہوں سے معافی طلب کرنا ہے، بندہ اپنے آقا کے سامنے گڑگڑائے ، گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے عفو ودرگزر کی التجا کرے، یہ عمل بھی مصیبتوں کو دور کرتا ہے، خود اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو قوم استغفار کرتی رہتی ہے، اللہ اس کو عذاب میں مبتلا نہیں فرماتے ہیں: ما کان اللہ معذبھم وھم یستغفرون (انفال: ۳۳) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو بندہ ا ستغفار کرتا ہے، وہ اللہ کے عذاب سے مأمون رہتا ہے: العبد آمن من عذاب اللہ ما استغفر اللہ (مسند احمد،حدیث نمبر: ۲۳۹۵۳) یہ ایک حقیقت ہے کہ آج امت کی اکثریت نہ صرف گناہوں میں مبتلا ہے؛ بلکہ زندگی کے ہر گوشے میں شریعت کے احکام کی دھجیاں اڑا رہی ہے، ان حالات میں کیسے اللہ کی رحمت متوجہ ہوگی اور مصیبتیں دور ہوں گی؛ لہٰذا مصیبت کی اس گھڑی میں خاص طور پر استغفار کا اہتمام کرنا چاہئے، استغفار کی ایک صورت تو یہ ہے کہ اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق کے سلسلہ میں جو جو کوتاہیاں اس سے ہوتی رہی ہیں، ان کو یاد کرتے ہوئے مغفرت کا طلب گار ہو اور جن گناہوں کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہو، ان کے بارے میں اللہ سے مغفرت چاہنے کے علاوہ صاحب ِحق کا بھی حق اداکر دے، یا ان سے معاف کرالے، دوسری صورت یہ ہے کہ اللہ کے حقوق کے معاملہ میں ہر ہر گناہ سے الگ الگ مغفرت چاہنے کی بجائے مطلقاََ تمام گناہوں سے مغفرت کا طلب گار ہو، جیسے کہے: استغفرا للہ ربی من کل ذنب وأتوب الیہ، نیز عربی میں ہی استغفار ضروری نہیں، اگر اپنی زبان میں توبہ واستغفار کے کلمات کہے اور اپنے گناہوں پر ندامت کا اظہار کرے تو یہ بھی کافی ہے۔
۰ بعض دعائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر نقصان سے محفوظ رہنے کے سلسلہ میں سکھلائی ہیں؛ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے شام میں تین مرتبہ یہ دعاء پڑھی وہ صبح تک اور جس نے صبح میں تین بار یہ دعاء پڑھی، وہ شام تک بلاء سے محفوظ ہو جائے گا:
بسم اللہ الذی لا یضر مع اسمہ شئی فی الارض ولا فی السماء وھو السمیع العلیم (سنن ابن ماجہ، عن عثمان، حدیث نمبر: ۳۸۶۹)
اللہ کے نام سے، جس کے نام کے ساتھ زمین وآسمان کی کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی اور اللہ خوب سننے والے اور خوب جاننے والے ہیں۔
یہ ارشاد کہ ’’زمیں وآسمان کی کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی ‘‘میں صحت کو نقصان پہنچانے والے وائرس بھی شامل ہیں، یہ دعاء آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر مصائب سے حفاظت ہی کے لئے تلقین فرمائی ہے؛ اس لئے اس کی خوب پابندی کرنی چاہئے۔
۰ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے کہ ایک صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : کل گزشتہ رات مجھے بچھو نے ڈس لیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ دعاء سکھلائی اور فرمایا کہ تم اگر شام میں اسے پڑھ لیتے تو بچھو نقصان نہیں پہنچاتا:
أعوذ بکلمات اللہ التامات من شر ما خلق (مسلم،حدیث نمبر: ۲۷۰۹)
جیسے بچھو ایک موذی کیڑا ہے، ویسے ہی کورونا بھی ایک موذی کیڑا ہے، جو نظر نہیں آتا؛ اس لئے اس دعاء سے ان شاء اللہ اِس میں بھی نفع ہوگا، نیز اس دعاء میں ہر مخلوق کے شر سے پناہ چاہی گئی ہے؛ اس لئے یہ اپنے الفاظ کے اعتبار سے بھی اس وباء کو شامل ہے۔
۰ یہ دونوں دعائیں بہت مختصر اور جامع ہیں، ان کو کثرت سے پڑھنا چاہئے؛ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مختصر لیکن بہت جامع دعاء ہے:
اللّھم إنی اسئلک العافیۃ فی الدنیا والآخرۃ (مسند احمد، عن عبداللہ ابن عمرؓ)
اے اللہ! میں دنیا وآخرت میں عافیت کا طلب گار ہوں۔
عافیت، بیماری سے عافیت کو بھی شامل ہے ، اور اپنی عافیت کے ساتھ ساتھ اپنے متعلقین کو بھی شامل ہے؛ کیوں کہ کسی شخص کے والدین، اولاد ، شوہر بیوی، بھائی بہن مصیبت میں ہوں تو وہ کیسے اپنے آپ کو عافیت میں محسوس کرے گا؟ یہ ایک طویل دعاء کا ٹکڑا ہے؛ لیکن اگر اس مختصر فقرہ کو بھی پڑھنے کا اہتمام کرے، جس کا یاد کرنا آسان ہے تو ان شاء اللہ نفع ہوگا۔
۰ ان اذکار کا علاوہ کسی بھی ضرورت کے لئے’’ نماز حاجت‘‘ رکھی گئی ہے، نماز حاجت کا طریقہ یہ ہے کہ اپنی ضرورت کو ذہن میں رکھ کر اس کے حصول کی نیت سے دو رکعت نماز پڑھی جائے، اور نماز کے بعد اس مقصد کے لئے دعاء کی جائے، اس نماز کا ذکر حدیث میں تو ہی ہے، خود قرآن مجید میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے: یا ایھا الذین آمنوا استعینوا بالصبر والصلاۃ (بقرہ: ۱۵۳)پس اپنے آپ کی اور پوری انسانیت کی حفاظت کے لئے کثرت سے نماز حاجت کا اہتمام ہونا چاہئے۔
۰ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ صدقہ کے ذریعہ اپنے بیماروں کا علاج کیا کرو؛ اس لئے کہ صدقہ مصیبتوں اور بیماریوں کو دور کردیتا ہے ’’ الصدقۃ تدفع عن الاعراض والامراض‘‘ ؛(شعب الایمان، حدیث نمبر:۳۲۷۸) اس لئے موجودہ حالات میں صدقہ کا بھی خصوصی اہتمام کرنا چاہئے، یہاں تک کہ مشہور محدث علامہ ابن قیمؒ نے لکھا ہے کہ صدقہ اگر فاسق وفاجر اور ظالم وکافر بھی کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو بعض بلاؤں سے محفوظ رکھیں گے: ولو کانت من فاجر أو من ظالم بل من کافر (الوابل الصیب: ۳۱)
غرض کہ مصیبت کے ان لمحات میں ظاہری اور مادی تدبیروں کے ساتھ ساتھ اللہ کے خزانۂ غیب سے مانگنا ضروری ہے اور یہی مؤمن کی پہچان ہے؛ کیوں کہ اس کا یقین ظاہری اسباب سے بڑھ کر غیبی اسباب پر ہوتا ہے !!!