*محمد انس فلاحی مدنی,علی گڑھ
سنبھل ہند و مسلم بھائی چارے کی علامت اور شناخت رہا ہے ۔ یہاں ہندو مسلم کے مابین ہمیشہ تجارتی اور معاشرتی تعلقات رہے ہیں، لیکن اب اس ایکتا اور انیکتا پر ضرب لگانے کی کوششیں ہور ہی ہیں ۔ ۱۹/نومبر ۲۰۲۴ءکو شاہی مسجد کے سروے کے بعد سے ہی وہاں کی فضاکو مسموم کرنے کا آغاز ہوا ۔ ۱۹/نومبر کو ہونے والے سروے کے لیے کورٹ نے جس جلد بازی اور سروے ٹیم کے ہمراہ جے شری رام کا نعرہ لگانے والوں نے جس طرح کی ذہنیت اور عزائم کا مظاہرہ کیا ۔ اسی نے یہ واضح کر دیا تھا کہ اب سنبھل کی ایکتا اور سنبھل کے مسلمانوں کو نشانا بنایا جائے گا ۔ چنانچہ ۲۴/ نومبر ۲۰۲۴ء کوعدالتی حکم کے بغیرصبح سویرے شاہی جامع مسجد کے سروے کے لیے پہنچنااور جمع بھیڑ کو بھگانے کے لیے جارحانہ رویہ اختیار کرنا اور فائرنگ کرنا دونوں غیر آئینی تھا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پانچ لوگ شہید ہوئے ،تیس سے زیاد ہ زخمی ہوئے۔۲۴/ نومبر۲۰۲۴ء کو ہونے والے واقعہ میں کئی سوال ایسے ہیں ؟ جس کا حکومتی سطح پرغیر جانب دار ی سے جائزہ لیا جانا نہایت ضروری ہے:۲۴/نومبر کو سروے کی ضرورت کیوں ہوئی ؟ اس کے لیے کورٹ سے اجازت کیوں نہیں لی گئی ؟ بھیڑ کوبھگانے کے لیے اسٹیٹ فائرنگ کا حکم کیوں دیا گیا ؟
اس سانحہ کے بعد سے ہی وہاں مسلمان اور بالخصوص رکن پارلیمنٹ ایڈوکیٹ ضیاء الرحمٰن برق نشانے پر ہیں ۔ سنبھل کے مسلمانوں اور ایم پی ضیا ء الرحمٰن برق کو طرح طرح سے پھنسانے کی کوشش کی جارہی ہے۔انھیں ہر معاملے سے جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔۲۴/نومبر کوسانحہ ہواتو سات افراد کے خلاف ایف آئی آردرج کی گئی ۔ ایک ایف آئی آر ایم پی ضیاء الرحمٰن برق کے خلاف بھی درج کی گئی۔حالاں کہ وہ اس دن بنگلور کےسفر پر تھے، سنبھل میں موجود ہی نہیں تھے۔ایسے میں ان کے خلاف ایف آئی آردرج کرنا مسموم زدہ ذہنیت کی ترجمانی ہے ۔ انتظامیہ نے ان کے گھر کے جس حصے کو نقشہ پاس کرائے بغیر تعمیر کرنے کا ملزم قرار دیا ہے ۔ گھر کے اس حصے میں ۲۷ /فروری۲۰۲۳ء سے ہی کام بند ہے۔
پھر اس کے بعد ان کے گھر پر بجلی میٹر کی تبدیلی کے لیے سینکڑوں کی تعداد میں پولیس کے ساتھ جانا اور ہوّا بنانا۔اتنی بھاری پولیس نفری کی ضرورت تو اس وقت ہوتی جب کہ کسی طرح سے کوئی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی جاتی۔ پھر بغیر کسی اطلاع اور نوٹس کے میٹر کی تبدیلی کے دودن ہی بعد صبح سویرے بجلی انتظامیہ اور بھاری پولیس فورس کے ساتھ بجلی چیکنگ کے لیے ان کے گھر پہنچ جانا ۔ دروازہ کھلوانے کے لیے دھمکی دینا ،لاتوں سے دروازہ توڑنے کی کوشش کرنا ۔آخر یہ سب کیا ہے ؟ کس آئین کے تحت ایسا ہوا ؟
بجلی انتظامیہ نے پورے گھر کا جائزہ لیا ۔گھر میں دو دو کلو واٹ کے دو میٹر موجود ہیں۔ دس کلو واٹ کا سولر سسٹم اور پندرہ کلو واٹ کا جنریٹر موجود ہے ۔ گھر میں رہنے والے دو سے چار افراد ہیں ۔ اس کو بہت سرسری انداز سے دکھایا اور بتایا گیا ۔ پھر لیب میں میٹر کی جانچ کے بغیر ہی بجلی چوری کی ایف آئی آر درج کر دی گئی ۔ یہ کتنی نامعقول بات ہے کہ کسی رکن پارلیمنٹ پر گھر کی بجلی چوری کا الزام عائد کیا جائے ۔کوئی بڑی فیکٹری ہوتی ،جہاں بجلی کی غیر معمولی کھپت ہونے کے باجود بجلی بل ادانہ کیا گیا ہوتاتو الزام درست ہوتا ۔ کیا عام ہندوستانی اسے قبول کرے گا کہ رکن پارلیمنٹ اپنے گھر کے بجلی میٹر میں چھیڑ چھاڑ کرے گا !جب کہ اس کے پاس دس کلو واٹ کا سولر سسٹم اور پندرہ کلو واٹ کا جنریٹر موجود ہے ۔ گھر میں رہنے والے دو سے چار افراد ہیں ۔ میٹر کی لیب ٹیسٹنگ ہوئی تو یہ ثابت ہو گیا ہے کہ میٹر میں کسی طرح کی کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں ہوئی ہے ،میٹر اپنی اصلی حالت میں ہے ۔ میٹر کی لیب ٹیسٹنگ سے پہلے ہی بجلی چوری کا الزام اورپھر ایک کروڑ اکیانوے لاکھ روپے جرمانے کی خبر کس بنیاد پر نشر کی گئی؟اس پر مزید یہ ستم کہ ان کے گھر کے باہر بنی سیڑھی کو بلڈوز کرنا ۔کیا یہ رکن پارلیمنٹ کی توہین نہیں ہے ؟آخر یہ سب کچھ کرکے وہ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ کس طرح کا ماحول بنانا چاہتے ہیں؟
ان کے والد پر بجلی انتظامیہ کے دو افراد کو دھمکانے کے جرم میں ایف آئی آر درج کر دی گئی ۔ حالاں کہ یہ بالکل جھوٹ اور بے بنیاد ہے ۔یہ کسی سے مخفی نہیں ہے کہ انتظامیہ کے افراد سنبھل میں مہلوکین کے ورثاء کو اپنا بیان بدلنے کے لیے دباؤڈال رہے ہیں ، دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ان پر ایف آئی آرکب درج ہوگی؟
میڈیا کا متعصبانہ کردار
انتظامیہ کی جارحانہ اور متعصبانہ کارروائی کے ساتھ میڈیا کا بڑا بدنما کردار سامنے آیا ہے ۔ میڈیا مسلسل ان کی چھوی کو خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔میڈیا اپنی ڈبیٹ میں مسلسل اس طرح کی ہیڈنگ بنا کر جھوٹی خبروں کو نشر کررہا ہے جس پر ہتک عزت اور جھوٹی خبر نشر کرنے کا مقدمہ درج کیا جانا چاہیے ۔گھگو سرائے سنبھل کے مندر کو میڈیا نے اس طرح پیش کیا کہ
جیسے مندر سالوں سے مسلمانوں کے قبضے میں تھا ، مسلمانوں نے وہاں ناجائز قبضہ کر رکھا تھا ۔سچ تو وہی ہے جو مندر کے پجاری اورمقامی ہندؤں نے کہا کہ ہم یہاں ۲۰۰۶ء تک رہے ، ہم اپنی مرضی سے گئے ،مندر پر کوئی ناجائزقبضہ نہیں ہوا ، مندر اسی طرح موجود ہے ۔ مندر کی چابی ہمارے پاس ہے ۔مندر میں پوجا ہوتی رہی ہے ،مندر کی ایک اینٹ بھی نہیں ہٹی ہے ۔میڈیا نے اس بیان کو دبا دیا اور یہ خبر پھیلا دی کے سنبھل میں نیا مندر ملا، پولیس نے مندر کو قبضے سے چھڑایا ۔آخر میڈیا پر کب لگام کسی جائے گی؟
اسی طرح ابھی ایم پی ضیا ء الرحمٰن برق کے گھر کی بجلی میٹر کی ریڈنگ چیک ہی نہیں ہوئی تھی کہ میڈیا نے یہ خبر پھیلا دی کہ ایم پی ضیا ء الرحمن برق پر بجلی چوری کا ایک کروڑ اکیانوے لاکھ جرمانہ عائد کیا گیا ہے ۔جو ان سے وصول کیا جائے گا ،عدم وصولی کی صورت میں ان کے گھر کُرکی کا اعلان کیا جائے گا۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ میڈیا جسے غیر جانب دار ہونا چاہیے وہ اس وقت حکومت کےا یجنڈوں پر کام کر رہی ہے ، ملک میں پھیلی نفرت کا سبب ہی میڈیا ہے ۔ میڈیا اہم مسائل سے چشم پوشی کرتے ہوئے لوگوں کو ہندو مسلم کے جھگڑے میں الجھا رہا ہے۔ہماری عدالت عظمیٰ سے درخواست ہے کہ وہ سنبھل سانحہ کے حقیقی مجرمین پر کارروائی کے لیے ایک اعلی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے جو غیر جانب داری سے وہاں کا جائزہ لے اورحقا ئق پیش کرے ۔ ورنہ جو لوگ واقعی مجرم ہیں ،وہ اپنے جرم کو مٹانے اور دبانے کے لیے گڑے مردے اکھاڑتے اور نئے مسائل اٹھاتے رہیں گے ۔
یہاں اس بات کا ذکر بے جا نہ ہوگا کہ ہندو ستان کے تمام اراکین پارلیمنٹ میں صرف مرحوم ڈاکٹر شفیق الرحمٰن برق کا ہی گھر اتنا سادہ اور چھوٹا ہے کہ اس میں بائک تک کی پارکنگ کی جگہ نہیں ہے ، نہ کوئی پارک ہے،نہ یہاں کوئی پھلواری ہے ۔ اس میں صرف عوام کے بیٹھنے کے لیے ایک ہال ہے ، جس میں چار پنکھے لگے ہوئے ہیں، کو ئی عالیشان نظم نہیں ہے۔ ان کا گھر کو ئی پرشکوہ عمارت نہیں ہے ، کہ گزرنے والا گزرےتو دیکھتا ہی رہ جائے بلکہ گزرنے والے کو تعجب ضرور ہوتا ہے کہ کئی بار کا ایم پی اور کئی بار کا ایم ایل اے رہنے والا شخص کیا اسی گھر میں اپنی پوری زندگی گزار گیا ۔جس گھر کی سادگی پر انھیں ایوارڈ اور اعزاز ملنا چاہیے،انتظامیہ اس پر نوٹس دے رہی ہے ۔ جس گھر کو تمام اراکین پارلیامنٹ کے سامنے سادگی کا نمونہ بنانا چاہیے ،اسے ہی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ڈیرھ ماہ گزرنے کو ہے ، گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے ، اب تک ۵۲ لوگوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے ۔حیرت اس امر پر ہے کہ عوام کی پتھر کی ویڈیو تو بہت وائرل کی گئیں ،لیکن کسی ویڈیو سے یہ ثابت نہیں کیا جاسکا کہ عوام کی جانب سے بھی فائرنگ ہوئی۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ جو لوگ گرفتار ہوئے ہیں ، ان کے ساتھ مستقبل میں کیا سلوک روا رکھا جائے گا،ان کی پیروی کون کرے گا؟ اور شہید ہونے والے نوجوانوں کو انصاف کب ملے گا ؟ اس سلسلے میں کب اور کس پر کارروائی ہوگی؟
اب شاہی جامع مسجد کے نزدیک بہت برق رفتاری سے پولس چوکی کی تعمیر کی جارہی ہے ۔جس زمین پر پرتعمیر کاکام چل رہا ہے ،اس کے سلسلے میں وقف کے کاغذات موجود ہیں ۔ وقف کا دعوی کرنے والوں پر ایف آئی درج کی جارہی ہے ۔ غرض کہ جو بھی آواز بلند کر رہا ہے ، اسے ڈرا یا اور دھمکایا جارہا ہے ، ایف آئی آر درج کرنے میں جس عجلت اور دل چپسی کا مظاہرہ ہو رہا ہے ، وہ قابلِ تشویش ہے۔ یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ سنبھل کے مسئلے کو جس بے باکی اور جرأت کے ساتھ سابق چیف منسٹر اکھلیش یادو نے اٹھایا ہے،قابل ِ تعریف ہے ۔ مؤرخہ ۷/جنوری۲۰۲۵ء کو انھوں نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ اگر ان کی حکومت آئی تو سنبھل فساد کی دوبارہ جانچ کی جائے گی۔ مسلم عوام میں یہ بات بھی زبان زد ہے کہ ہند وستان میں مسلم سیاسی اور مذہبی قیادت کو ٹارگیٹ کیا جا رہا ہے ،شہاب الدین اورمختار انصار ی کی پولس کسٹڈی میں جس انداز سےموت ہوئی اورعتیق اور اشرف کا پولس کی آنکھوں کے سامنے جس انداز سے قتل ہو ا ،سابق ایم پی اعظم خاں اور ان کے بیٹے عبد اللہ اعظم کے خلاف جس طرح کی بے بنیاد کارروائی ہوئی ،وہ اقلیتوں کے لیڈران کے لیے تشویش ناک صورت حال پیدا کردیتی ہے۔ان سارے واقعات نے کئی ایسے سوال کھڑے کر دیے ہیں،جس سے جہاں ایک طرف مسلم طبقے میں ڈر وخوف پیدا ہورہا ہے تو دوسری طرف یہ جمہوریت ، عدالت اور پولس کے اوپر بھی بہت بڑا سوال ہے ۔کیا جمہوری ملک کی یہی پہچان ہے ؟ کیا عوام کے محافظ ایسے ہی ہوتے ہیں؟ کیا میڈیا آزاد ہوتا ہے؟(یہ تجزیہ نگار کی ذاتی رائے ہے)