اوکھلہ کے شہریوں کی سانس میں سانس آئی جب یہ فیصلہ سامنے آیا کہ دہلی ہائی کورٹ نے ممکنہ متاثرین کو عدالت سے رجوع کرنے کے لیے تین دن کی مہلت دی ہے۔ عدالت نے کہا کہ بٹلہ ہاؤس میں اگلے ہفتے تک کوئی انہدائی کارروائی نہیں کی جائے گی۔دوسری طرف عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے امانت اللہ خان کو بٹلہ ہاؤس میں انہدامی کارروائیوں کے خلاف اپنی درخواست واپس لینے کی اجازت دے دی،
عدالت نے کہا کہ ’’ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت حکام کیوں سوتے رہتے ہیں جب لوگ عمارتیں کھڑی کرتے ہیں اور ایک دن اچانک جاگ اٹھتے ہیں اور انھیں مسمار کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ہمیں انصاف کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔‘‘ یہ حکم اس وقت آیا ہے جب ڈی ڈی اے نے انہدامی کارروائی کو روکنے کی کسی بھی باقاعدہ یقین دہانی سے انکار کر دیا تھا۔
عدالت نے کہا کہ ایک عرضی پر عام حکم پاس کرنے سے انفرادی قانونی چارہ جوئی کا معاملہ خطرے میں پڑ سکتا ہے اور عدالت کو اس معاملے کی سماعت کرنے کی ضرورت ہے۔ جسٹس گریش کٹھپالیا اور تیجس کریا پر مشتمل بنچ نے کہا کہ عدالت مفاد عامہ کی عرضیوں کے ذریعہ اس معاملے پر بحث نہیں کر سکتی اور یہ نتیجہ خیز نہیں ہوگا۔
جب وکیل نے عشرت جہاں کے معاملے کا حوالہ دیا، جس میں ہائی کورٹ کی سنگل جج بنچ نے انھیں راحت دی تھی، تو بنچ نے کہا کہ متاثرہ شخص کو عشرت جہاں کی طرح خود عدالت سے رجوع کرنا چاہیے۔ وہیں امانت اللہ خاں کے وکیل نے کہا کہ مسماری کا عمل خسرہ نمبر 279 سے بھی آگے بڑھ رہا ہے کیوں کہ اس کے باہر کے مکانات کو بھی نشان زد کیا گیا ہے اور بےترتیبی کے ساتھ ساتھ نوٹس لگائے گئے ہیں۔عدالت نے کہا کہ خسرہ نمبر 279 کے باہر جن عمارتوں پر نوٹس لگا ہے وہ سپریم کورٹ کے ذریعہ فراہم کردہ فریم ورک کے تحت قانونی سہارا لے سکتے ہیں۔ اپنی درخواست میں امانت اللہ خان نے الزام لگایا تھا کہ ڈی ڈی اے کی طرف سے انفرادی ڈھانچے کی شناخت کیے بغیر یا انفرادی ڈھانچے یا رہائشیوں کی شناخت کیے بغیر مبہم اور عام نوٹس جاری کیے گئے ہیں اور اس طرح شہریوں کو ان کے آئینی حقوق سے محروم کیا گیا ہے۔ بہر حال بٹلہ ہاؤس والوں کو نماز کم ایک ہفتے کی عارضی راحت مل گئی ہے اور عدالت کے رخ سے لگتا ہے کہ وہ معاملہ کی تہہ تک جانا چاہتی ہے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں