تجزیہ:تفسیر بابو
بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد ملک میں مختلف اوقات میں مختلف ناموں سے کئی نئی سیاسی جماعتیں بنیں۔ ان میں سے کچھ اب بھی موجود ہیں تاہم کُچھ وقت کے ساتھ ساتھ ملکی سیاسی منظر نامے سے غائب ہو گئیں۔
ان میں سے کچھ سیاسی جماعتیں دائیں بازو کی ہیں اور کچھ بائیں بازو کی۔ کچھ جماعتیں قوم پرستی کا نعرہ لگاتی رہی ہیں جبکہ دیگر سیکولر یا مذہبی نظریات کے ساتھ آگے بڑھی ہیں۔آزادی کے بعد بننے والی نئی جماعتوں میں بی این پی یعنی بنگلہ دیش نیشنل پارٹی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے۔ یہ وہ سیاسی جماعت تھی جس نے یکطرفہ طور پر انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور اقتدار میں آئی۔نتیجتاً ملک کی سیاست وسیع پیمانے پر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی: عوامی لیگ اور بی این پی۔اب ملک میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمہ اور عبوری حکومت میں شامل رہنماؤں کا کہنا ہے کہ فروری کے تیسرے ہفتے میں ایک نیا ’سٹوڈنٹ گروپ‘ بننے جا رہا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ اس نئی سیاسی جماعت یا سٹوڈنٹ گروپ کا نظریہ کیا ہوگا؟
کیا قیادت میں صرف نوجوان ہوں گے یا تجربہ کار لوگوں اور سیاسی شخصیات کو بھی اس میں جگہ ملے گی؟
اور سب سے اہم یہ کہ مذہب کے بارے میں اس نئی پارٹی کی سوچ اور موقف کیا ہوگا؟سٹوڈنٹ گروپ کی تشکیل کی نگرانی نیشنل سٹیزن کمیٹی اور امتیازی سلوک کے خلاف طلبہ تحریک کے رہنما کر رہے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ نیا سٹوڈنٹ گروپ بنگلہ دیش میں بائیں بازو یا دائیں بازو کے سیاسی رجحانات سے آزاد ہو۔ جسے وہ اعتدال پسند پوزیشن کہتے ہیں۔
نیشنل سٹیزن کمیٹی کے ممبر سکریٹری اختر حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم بائیں بازو اور دائیں بازو کی سیاست سے آزاد ہو کر مرکزی سیاست کی بات کر رہے ہیں۔ ہم بنگلہ دیش کے معاملے پر متحد رہنا چاہتے ہیں۔ ہم اسلاموفوبیا یا بنیاد پرست اسلامی یا بنیاد پرست ہندوتوا کی سیاست میں نہیں پڑنا چاہتے۔اس معاملے میں پارٹی کوئی نظریہ پیش نہیں کرنا چاہتی، چاہے وہ قوم پرست ہو، سیکولر ہو یا مذہبیطلبہ کا ممکنہ نیا گروپ سیکولر یا مذہبی ایسی کسی بھی شناخت کو اپنانا نہیں چاہتا۔نیشنل سٹیزن کمیٹی کی ترجمان سمانتھا شرمین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم حقوق، ذمہ داری اور سمجھوتے کی سیاست کو آگے لائیں گے تاکہ یہاں کوئی مخصوص رائے یا مذہب اہم نہ ہو لیکن گزشتہ چند دہائیوں میں دنیا بھر کے مختلف ممالک میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ کم وقت میں نئی سیاسی جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ اور بنگلہ دیش کے طلبہ کی نظریں انھی سیاسی شخصیات کی طرف ہیں۔میں ترکی کے رجب طیب ایردوان کی اے کے پارٹی، پاکستان میں عمران خان کی تحریک انصاف اور انڈیا میں اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی نے خاص طور پر عالمی توجہ حاصل کی ہے۔
طلبہ کامیابی کے ’منتر‘ کی تلاش میں ان تینوں نئی جماعتوں کے پروگرامز، تنظیمی ڈھانچے وغیرہ کا بغور مطالعہ کر رہے ہیں۔ مثلاً وہ اس حوالے سے غور کر رہے ہیں کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ہوتے ہوئے تیسرے قوت کیسے بنے اور عوام میں انھیں مقبولیت کیسے حاصل ہوئیابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس نئی سیاسی جماعت یا قوت میں سب سے اوپر کون ہوگا۔ ایسی افواہیں بھی بنگلہ دیش کے سیاسی منظر نامہ پر گردش کر رہی ہیں کہ اس وقت عبوری حکومت میں شامل مشیر ’ناہید اسلام‘ یہ عہدہ خود سنبھال سکتے ہیں۔ اس صورت میں وہ مشیر کی حیثیت سے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں گےسٹوڈنٹ موومنٹ کے کوآرڈینیٹر ابو بکر مظفر کہتے ہیں کہ ’اگرچہ اس معاملے میں نوجوانوں کی اکثریت ہوگی لیکن تجربہ کار افراد کو پارٹی قیادت کی مختلف سطحوں پر جگہ دی جا سکتی ہے۔‘
اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو طلبہ کا نیا گروپ فروری کے تیسرے ہفتے میں پہنچ جائے گا۔ تاہم چیف ایڈوائزر کا کہنا تھا کہ نیا گروپ ایک ایسے وقت میں آ رہا ہے جب آئندہ دسمبر تک قومی انتخابات ہو سکتے ہیں۔سٹیزن کمیٹی کے رہنماؤں کو یقین ہے کہ وہ اپنے سیاسی سفر میں بغاوت کی حامی جماعتوں کو اپنے ساتھ پائیں گے۔ تاہم وہ فی الحال کسی اتحاد کا حصہ بننے یا ووٹنگ سے پہلے انتخابی اتحاد بنانے کے بارے میں نہیں سوچ رہے۔کیونکہ وہ اپنے بل بوتے پر ایک بڑی سیاسی جماعت بننا چاہتے ہیں۔(بشکریہ بی بی سی،یہ تجزیہ نگار کے ذاتی خیالات ہیں)