••• کیا ہیں شرائط
••آن لائن پوسٹ ،اسپیچ نہیں دیں گے••پاسپورٹ جمع کرانا ہوگا••تحقیقات میں شامل ہوں گے اور تحقیقات میں مکمل تعاون کریں گے
دہلی: پورے ملک میں پروفیسر علی خان کی گرفتاری کی گونج سنائی دے رہی ہے اسی دوران سپریم کورٹ نے اشوکا یونیورسٹی، ہریانہ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر علی خان محمود آباد کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ پروفیسر علی خان کو آپریشن سندور سے متعلق سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے پروفیسر علی خان کو اس شرط پر عبوری ضمانت دی کہ وہ سی جے ایم، سونی پت کے سامنے ضمانتی مچلکے پیش کریں۔ وہ دونوں پوسٹوں سے متعلق کوئی آن لائن پوسٹ یا مضمون نہیں لکھیں گے اور نہ ہی کوئی آن لائن تقریر کریں گے، جو کہ تحقیقات کا موضوع ہے۔مطلب یہ ہے کہ عدالت عظمٰی نے پروفیسر خان کو ہندوستانی سرزمین پر دہشت گردانہ حملوں یا اس کے خلاف جوابی کارروائی کے بارے میں کوئی تبصرہ کرنے سے روک دیا ہے۔ علی خان کو اپنا پاسپورٹ جمع کرانا ہوگا۔ سپریم کورٹ نے تین آئی پی ایس افسران پر مشتمل ایس آئی ٹی کی تشکیل کا حکم دیا ہے جس میں ایک خاتون افسر بھی شامل ہوگی جو ریاست سے باہر کی ہوگی۔
سپریم کورٹ نے ہدایت دی کہ 24 گھنٹے کے اندر ایس آئی ٹی بنائی جائے، ایسوسی ایٹ پروفیسر علی خان تحقیقات میں شامل ہوں گے اور تحقیقات میں مکمل تعاون کریں گے۔
واضح رہے، جماعت اسلامی کے نائب امیر ملک معتصم خان اور جمعیتہ علما ہند کے صدر مولانا محمود مدنی نے بی جے پی اور اس کی ریاستی حکومتوں پر دہرا رویہ اپنانے کا الزام لگاتے ہوئے پروفیسر علی خان کی گرفتاری کی سخت لفظوں میں مذمت کی تھی۔ مولانا محمود مدنی نے کہا تھا کہ کرنل صوفیہ قریشی سے متعلق نازیبہ ریمارکس کرنے والے مدھیہ پردیش کے سینئر وزیر کنور وجئے شاہ کے خلاف بی جے پی قیادت نے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے نوٹس لینے کے باوجود کوئی کاروائی نہیں کی۔