اتراکھنڈ اور اتر پردیش میں سپریم کورٹ کے قانونی تحفظ کے باوجود لگاتار مزارعت و مساجد کے انہدام کی خبریں آرہی ہیں ،اسی دوران ایک خبر آئی ہے جس کے مطابق سپریم کورٹ نے اتراکھنڈ حکومت سے ایک اہم عرضی پر جواب طلب کیا ہے، جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ وقف ایکٹ کے تحت عارضی تحفظ کے باوجود ہلدوانی میں ایک درگاہ کو مسمار کر دیا گیا۔ یہ عرضی وکیل فیاض احمد کی جانب سے دائر کی گئی، جنہوں نے دعویٰ کیا کہ اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود، جس میں وقف املاک کی مسماری پر روک لگائی گئی تھی، مقامی انتظامیہ نے غیر قانونی طور پر درگاہ کو منہدم کر دیا۔ اس معاملے کی سماعت چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی کی سربراہی میں ہوئی، جنہوں نے اتراکھنڈ حکومت کو فوری طور پر جواب داخل کرنے کی ہدایت دی۔
بھارت ایکسپریس نے بتایا کہ عرضی کے مطابق، ہلدوانی میں واقع درگاہ کو وقف بورڈ کے تحت رجسٹرڈ کیا گیا تھا اور اسے وقف ایکٹ کے تحت تحفظ حاصل تھا۔ درخواست گزار نے الزام لگایا کہ مقامی انتظامیہ نے نہ صرف عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کی بلکہ مذہبی مقام کی توہین بھی کی، جس سے مقامی کمیونٹی میں شدید ناراضی پھیل گئی۔ عرضی میں یہ بھی کہا گیا کہ مسماری کے عمل کے دوران مناسب قانونی طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا اور متاثرین کو کوئی پیشگی نوٹس نہیں دیا گیا۔
سپریم کورٹ نے اس معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اتراکھنڈ حکومت سے چار ہفتوں کے اندر مفصل جواب مانگا ہے۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ وقف املاک سے متعلق قوانین کی پاسداری ہر حال میں یقینی بنائی جانی چاہیے۔ اس کیس سے جہاں قانونی بحث چھڑ گئی ہے، وہیں اس نے مذہبی مقامات کے تحفظ اور انتظامی اختیارات کے استعمال پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔یہ معاملہ نہ صرف اتراکھنڈ بلکہ پورے ملک میں وقف املاک کے تحفظ کے حوالے سے ایک اہم مثال بن سکتا ہے۔ مقامی کمیونٹی اور وکلاء کی جانب سے اس کیس پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے، کیونکہ اس کا فیصلہ مستقبل میں اس طرح کے تنازعات کے حل کے لیے ایک رہنما اصول ثابت ہو سکتا ہے۔