مولانا عبدالخالق ندوی
ماہ رمضان کی 17 تاریخ سنہ 2 ہجری تاریخ اسلام کا وہ عظیم الشان یادگار دن ہے جب اسلام اور کفر کے درمیان پہلی فیصلہ کن جنگ لڑی گئی اور مٹھی بھر مسلمانوں کو کفار کے لشکر پر فتح عظیم حاصل ہوئی۔یہ بات مفسر قرآن مولانا عبدالخالق ندوی نے کہی۔ ’روزنامہ خبریں‘ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ غزوہ بدر کو دیگر غزوات پر کئی اعتبار سے فوقیت حاصل ہے۔ اسے کفر و اسلام کا پہلا معرکہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ خود حضور اکرم ؐ نے غزوہ بدر کو ایک فیصلہ کن معرکہ قرار دیا اور قرآن مجید نے اسے یوم الفرقان سے تعبیر کر کے اس کی اہمیت پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔غزوہ بدر خدا پر توکل کا درس دیتا ہے جامعتہ الصالحات رامپور میں استاد مولانا عبدالخالق ندوی نے کہا کہ ارشادباری تعالیٰ ہے کہ ’جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر (حق و باطل کے درمیان) فیصلے کے دن نازل فرمائی وہ دن (جب بدر میں مومنوں اور کافروں کے) دونوں لشکر باہم متصادم ہوئے تھے‘۔سورہ انفال
اعلان نبوت کے بعد 13 سال تک کفار مکہ نے محمد رسول ﷺ اور آپ ؐ کے صحابہ کرام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے مگر مسلمانوں کا جذبہ ایمانی کم نہ ہوا۔ ان کا خیال تھا کہ مٹھی بھر بے سرو سامان ’سر پھرے‘ بھلا ان کی جنگی طاقت کے سامنے کیسے ٹہر سکتے ہیں، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔بالآخر غزوہ بدر کی گھڑی آئی اور صرف 313 مسلمانوں نے کفار کے دگنے لشکر سے مقابلہ کیا اور ایسی فتح پائی کہ اسلام کا بول بالا ہوگیا۔غزوہ بدر کفار کے تقریباً 70 آدمی قتل ہوئے اور 70 افراد کو قیدی بنایا گیا۔ کفار کے وہ سردار جو شجاعت و بہادری میں بے مثال سمجھے جاتے تھے اور جن پر کفار مکہ کو بڑا ناز تھا، وہ سب کے سب مسلمان مجاہدوں کے ہاتھوں مقتول ہو کر دوزخ کا ایندھن بن گئے اور جو زندہ رہ گئے، وہ میدان چھوڑ کر ایسے بھاگے کہ پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا اور سیدھا مکہ میں اپنے گھروں میں جا کر دم لیا۔لشکر اسلام میں سے صرف 14 خوش نصیب سر فروش مجاہدیں نے شہادت کا عظیم منصب حاصل کیا اور جنت الفردوس میں داخل ہوگئے۔ ان میں سے 6 مہاجرین اور 8 انصار تھے۔اس دن حضور ﷺ نے دعا فرمائی: ’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ اپنا وعدہ اور اقرار پورا کر، یا اللہ! اگر تیری مرضی یہی ہے (کہ کافر غالب ہوں) تو پھر زمین میں تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا‘۔اسی لمحے رب کائنات نے فرشتوں کو وحی دے کر بھیجا: ’میں تمہارے ساتھ ہوں، تم اہل ایمان کے قدم جماؤ، میں کافروں کے دل میں رعب ڈال دوں گا۔ سنو! تم گردنوں پر مارو (قتل) اور ان کی پور پور پر مارو‘۔سورہ انفال آیت 12۔
ایک آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: ’میں ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا جو آگے پیچھے آئیں گے‘۔مقام بدر میں لڑی جانے والی اس فیصلہ کن جنگ نے یہ ثابت کیا کہ مسلمان نہ صرف ایک قوم بلکہ مضبوط اور طاقتور فوج رکھنے کے ساتھ بہترین نیزہ باز، گھڑ سوار اور دشمن کے وار کو ناکام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔قرآن پاک کی کئی آیات اور احادیث مبارکہ غزوہ بدر میں حصہ لینے والوں کی عظمت پر دلالت کرتی ہیں۔غزوہ بدر کو 14 سو سال گزر چکے ہیں لیکن اس کی یاد آج بھی مسلمانوں کے ایمان کو تازہ کر دیتی ہے۔ صدیوں بعد آج بھی مقام بدر کفار مکہ کی شکست فاش اور مسلمانوں کی فتح و کامرانی کی گواہی دیتا ہے۔غزوہ بدر سے ہم کو یہ سبق ملتا ہے کہ اپنی تمام تدابیر حکمت عملی اختیار کرنے کے بعد ہر حال میں اللہ کی مدد پر بھروسہ اور توکل کرنا ۔ مولانا نے کہا کہ مسلمان اپنی تعداد قوت و طاقت اور اسباب کو حتی الامکان جمع تو کرتا ہے مگر بھروسہ ہمیشہ اللہ کی ذات پر کرتا ہے ۔ اسی کی مدد کا طالب ہوتا ہے ۔ غزوہ بدر میں ایک طرف صرف 313 افراد ، دو گھوڑے ، 70 اونٹ ،چند تلواریں اور چند نیزے تھے ،بہت سارے نہتے تھے ۔ دوسری جانب ایک ہزار دشمن تمام نمایاں سرداروں کرنل جرنل کی موجودگی ، آلات حرب کا ڈھیر اور مال و دولت اور ساز و سامان کا انبار، 100 گھوڑے اور 170 اونٹ۔ مگر مسلمان خوفزدہ نہ ہوے ،بزدلی کا شکار نہ ہوے ، گھبراکر میدان سے راہ فرار اختیار نہ کی ، موت کے ڈر سے کفار و مشرکین کے سامنے کسی طرح کی کمزوری یا خوف کا مظاہرہ نہ کیا ، کسی طرح کے لیت و لعل اور حیلہ و بہانہ کی روش اختیار نہ کی۔ شرعی احکام یا ایمان و اسلام سے دستبرداری کا اعلان نہ کیا بلکہ دشمنوں کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوئے ۔ جو اللہ کی خوشنودی اور نفاذ اسلام کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے حا ضر تھے۔
غزوہ بدر کا ایک پیغام یہ ہے کہ مسلمان بڑے سے بڑے فرعون وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اعلان کرتا ہے کہ تم میرا کیا بگاڑ سکتے ہو ۔زیادہ سے زیادہ مجھے اذیت دے سکتے ہو ، میرا قتل کرسکتے ہو مگر تم مجھے میرے دین سے پھیر سکو ، تو یہ کسی کے بس کا نہیں ہے ۔ میرا جینا اور میرا مرنا سب معبود حقیقی ذات واحد لا شریک کے لیے ہے۔