مولانا عبد الحمید نعمانی
راشٹر واد میں اگر حب الوطنی اور محبت کا جذبہ ہو تو وہ کوئی قابل احتراز چیز نہیں ہے ۔ اسے پوری طرح مستر د کر دینا یا دشمنی و مخالفت کو اس کے نام پر انسانوں کی تقسیم اور نفرت کا، اپنے مفادات و مقاصد کے حصول کے لیے استعمال دونوں غلط ہیں۔ ہندوستان میںہندوتو وادی عناصر کی طرف سے جس راشٹر واد کو بڑھاوا دینے کی کوشش کی جارہی ہے اس کا ملک کے تکثیر ی معاشرے اور اس میں جاری فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی روایات سے کوئی تعلق نہیں ہے ،تنگ نظری اور دیگر کی دشمنی اور نفرت پر مبنی کوئی بھی نظریہ ،خاص طور سے قومیت کی بنیاد پر پر امن معاشرہ وجود میں نہیں آ سکتاہے ، اس میں رہنے والے کبھی بھی عالمی معلم (وشو گرو)کا کردار ادا نہیں کر سکتے ہیں ، وہ تو اپنے وطن اور سماج کے لیے مسئلہ اور اتحاد و استحکام کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ کسی بھی چیز کی منفی بنیاد ،دیرپا نہیں ہوتی ہے وہ دیر سویر خود دوسروں کے لیے تباہی بن کر سامنے آتے ہیں ۔ یہ بار بار، تاریخ کی نظروں نے دیکھا ہے ایسے لمحوںکی خطا صدیوں کو متاثر رکھتی ہے ۔
ہٹلر کا انجام سامنے ہے ، اس کے منفی و جارحانہ راشٹر واد نے بھیانک مظالم اور قتل و غارت گری کو جنم دیا اور اسی تباہی اور خودکشی کی موت کا لقمہ بن گیا ۔ اس نے اپنی آریائی نسلی برتری اور حق حکمرانی کے نعرے سے ایک طاقتور ،جو ش و جذبے سے بھرا ،گروہ پیدا کیا اور مسلح ہو کر جنگ شروع کر دی ، اس گروہ نے دیگر کے ساتھ خود کو بھی تباہ کر لیا۔
یہ اہل علم سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ہندوتوادی عناصر اور ان کے پیشوائوں نے جرمن ماڈل کے منفی جارحانہ اوردیگر سے دشمنی پر مبنی راشٹر واد کو بھارت میں درآمد کر کے خود کو سامنے لانے کا کام کیا ہے ۔ اس راشٹرواد کی سب سے بڑی خامی اور تباہ کن پہلو یہ ہے کہ وہ دیگر کی دشمنی کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے نہ پروان چڑھ سکتا ہے ، اسے ملک سے باہر اور اندر اصلی فرضی دشمن کی سدا ضرورت رہتی ہے ۔ منفی راشٹر واد کے حامل عناصر اگر عالمی برادری کے دبائو سے خود کو لبرل اور سب کو ساتھ لے کرچلنے اور یک جہتی کی بات کرتے ہیں تو عین اسی وقت اپنے وجود اور اکثریت کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کے لیے اندرون ملک، محاذ آرائی، خطرات اور دشمنوں کی بھیانک موجودگی کی تشہیر بھی کرنی پڑتی ہے ، یہ سب کچھ برسوں سے ہوتا آرہا ہے اور آج بھی ہو رہا ہے ۔ اس صورت حال کے پیدا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ منفی جارحانہ راشٹر واد کے حامل عناصر کے پاس بہتر سماج کی تشکیل کے لیے کوئی بہتر آدرش نہیں ہے ۔ وہ صرف تفوق، ذاتی مفادات اور ملک کے وسائل حیات پر کنٹرول اور اپنی لذت کوشی کے لیے ان کا استحصال و استعمال کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔ اس کا شدت سے احساس گاندھی ، ٹیگور،منشی پریم چند جیسی دانش ور مفکر اور عظیم شخصیات کو تھا، اس لیے انھوں نے دیگر کی دشمنی پر مبنی جارحانہ منفی راشٹرواد کی شدت سے مخالفت کی ہے ۔ کیوں کہ یہ راشٹر واد، مسلک انسانیت کی راہ میں بڑی رکاوٹ اور قومی یک جہتی ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے تباہ کن ہے ۔
دیس میں بہتر تبدیلی تبھی آسکتی ہے جب بہتر ذہنی و فکری تبدیلی ہوگی۔ چہرے اور افراد یا اقتدار کی تبدیلی سے کوئی خاص تبدیلی نہیں آسکتی ہے ۔ بھارت میں بڑی توانائی اور تب و تاب ہے ، صرف اسے صحیح سمت دینے کی ضرورت ہے ، یہاں دیس اور دھرم کے نام پر کچھ بھی ہوسکتا ہے اور کیا جاسکتا ہے ۔ سیکولر طاقتوں کے انتشار و افتراق اور ناکامیوں میں بڑادخل دیس ، دھرم کو صحیح طور سے سمجھتے ہوئے عوام خصوصاً اکثریتی عوام سے بہتر رشتہ استوار نہ کرنا ہے ، انھوں نے تفوق پسند مفاد پرست عناصر کے دھرم اور دیس کے نام پر دھند اور دھن کے غلط استعمال و استحصال کو روکنے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی ، سیکو لر کہی جانے والی طاقتوں نے گاندھی ، نہرو، آزادؒ ، مدنیؒ کی طرح اکثریت پرستی اور فرقہ پرستی کے عوامی رجحان پر قدغن لگانے کی کوششوں کے بجائے، جہاں انھوں نے ایک طرف اقتدار کا حصول، مقصدبنانے کے لیے، اکثریت میں اپنی جگہ بنانے پر توجہ مرکوز کی ہے اوردیگر سے خود کا قد اور پد (منصب)کو نمایاں کرنے پر توانائی صرف کی ہے تو وہیں دوسری طرف ان کے ایک بڑے حصے نے دھرم اور دیس کی صحیح روایات کو نظر انداز کر کے عوام کو اچھی مذہبی و سماجی روایات کی تحقیر و تضحیک کر کے خود سے دورکر دیا ۔ اس سے پیدا شدہ خلا کا بھر پور فائدہ فرقہ پرست اور منفی و جارحانہ راشٹر واد کے حامل عناصر نے اٹھایا۔
بھارت میں ایسے افراد کے لیے کامیابی و مقبولیت کا کوئی سوال نہیں ہے جو کھلے عام مذہب و روحانیت سے بیزاری و ترک کااظہار کرتے ہیں ۔ گاندھی کی کامیابی و مقبولیت میں دیس اور دھرم سے مثبت تعلق کے اظہار کا بڑا دخل ہے ۔ جناح کو بھی اپنے مذہبی نہ ہونے کے باوجود اپنے مقصد میں کامیابی کے لیے دین ، دھرم کے نام کا استعمال کرنا پڑا تھا، ایسی حالت میں دھرم اور دیس کے نام پر غلط سرگرمیوں پر قدغن لگانے اوردھرم،دیس سے صحیح رشتے کے قیام پر توجہ مبذول کرنا از حد ضروری ہے، اس کے بغیر حالات میں بہتر تبدیلی کی راہ ہموار نہیں ہو سکتی ہے۔
چاہے راشٹر ہویا راشٹر واد، دونوں کو ملک اور اس کے عوام کے مفادات اور پبلک سروکار والے مسائل و ضروریات سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا ہے ۔ دیس سے دیس واسیوں کو باہر کر دینے سے دیس کا کوئی معنی و مطلب نہیں رہ جاتا ہے ۔ عوام کے مفادات کو نظر انداز کر کے کچھ گھرانے کے ہاتھوں میں وسائل اور سرمایے کے ارتکاز کر نے کی کو ششیں ، راشٹر واد کے تحت نہیں آسکتی ہیں ، اس سلسلے میں بیداری اور سمجھ داری پیدا کرنا، وقت کی بڑی ضرورت اور ملک کے مفاد میں ہے ۔ راشٹر میں رہنے والے کے ساتھ، بغیر بھید بھائو کے یکساں طور سے محبت حسن سلوک و انصاف اور جان و مال کا تحفظ ہی صحیح راشٹر واد ہے ۔ ملک کی اقلیتوں کی اکثریت، آدی واسی ،دلت ، محنت کش ،کا مگاروں اور کسانوں کو نظر انداز کر کے صرف کچھ سرمایہ داروں کا ملک پر تسلط، راشٹر واد نہیں ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ راشٹر واد کی تعریف و تعبیر پر نتیجہ خیز ملک گیر سطح پر بحث و گفتگو کی جائے ۔
راشٹر واد کی واضح اور صحیح تعریف و تعبیر ملک کے سامنے نہ ہونے کی وجہ سے ہر کوئی اسے اپنے نفع و منشاء کے حساب سے پیش کر کے سماج میں کنفیوژن پھیلانے کا کام کر رہا ہے ، ملک کی ہندوتو وادی لابی ،ہندو اور ہندوتو کو ہی ہندستانی راشٹر واد باورکر انے میں لگی ہوئی ہے ۔ وہ ہندستان اور ہندو ،ہندوتو کو ہم معنی قرار دے کر بھارت کے تکثیری سماج کی خوبصورتی اور آزادی کو تباہ اور سلب کرنے کی سمت میں تیزی سے بڑھ رہی ہے ، یہ عناصر شہریت اور شہریوں کے متعلق آئین کے خلاف،بھید بھائو پر مبنی مختلف قسم کے قوانین کی توضیع کر کے سماج کی وطنی و حدت اور برابری کو بے معنی بناکر ایک مخصوص طرح کا طرز حکومت اورتفریق و تحقیر پر مبنی قدیم سماجی نظام کا نفاذ کر کے ملک کے تمام باشندوں کو اپنی طرح اور اپنے طرز فکر و روایت کے ماتحت و محکوم بنانے کی منصوبہ بند مہم میں لگے ہوئے ہیں اور حیرت ہے کہ اس کے مقابلے میں سماج وادی ،سوشلٹ، سرودیہ تحریک اور سیوا دل کا وجود ،تمام تر دعوے کے باوجود نہیں کے برابر ہے ، معروف تحقیق کار اورمصنف ابھے کمار دوبے کی بڑی فکر انگیزکتاب ،’’ ہندوتو کی ایکتا، بنام گیان کی راجنیتی ‘‘ہے ، جس میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ہندوتو کے تناظر میں منفی و جارحانہ راشٹر وادکااستعمال کر کے سیاسی و سماجی تفوق کے لیے کام کیا جاتا ہے ، دوبے کی کتاب کے ساتھ اگر مدھو پورنیما کشورکی کتاب ’’راشٹر واد کی چارکری میں دھرم‘‘کا مطالعہ بھی ملا لیا جائے تو مزید باتوں کے ساتھ پورا منظر نامہ سامنے آجاتا ہے، گزشتہ کچھ برسوں میں بدلتے سیاسی ،سماجی منظر نامے کے پیش نظر حالات کا تجزیہ و مطالعہ وقت کی بڑی ضرورت ہے ،ہندوتو وادی منفی جارحانہ راشٹر واد کے ساتھ ساتھ ، گاندھی ، نہرو، مدنی ؒ ، آزادؒ کے راشٹر واد کے تقابلی مطالعے سے راشٹر واد کے مثبت و منفی اثرات و نتائج کو دیکھا سمجھا جا سکتا ہے ۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)