•پروفیسر محمد فاضل علی، کینیڈا
قریب پندرہ سال بعد ایک دفعہ پھر دلّی دیکھنے کا موقع ملا۔ گرچہ اس تاریخی شہر میں صرف بارہ گھنٹے قیام رہا۔ پھر بھی شہر کی صورت حال سمجھنے میں کسی قسم کی مشکل نہیں ہوئی۔ چونکہ دلّی بھارت کا دارالخلافہ ہے اس بنا اس کی اہمیت دیگر اور شہروں کے مقابلے بہت زیادہ ہے۔ لوگ ہندوستان بھر کے مختلف شہروں سے یہاں آکر بس گئے ہیں۔ مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کا یہاں ملاپ ہوتا ہے۔ ایسی صورت حال میں کسی ایک تہذیب یا ثقافت پر شہر کے بسنے والوں کو راضی کرنا اور عمل پر مجبور کرنا بہت مشکل کام ہے۔
قلت وقت کے سبب صرف شہر کے مصروف علاقے شاہین باغ، اوکھلا ہی میں ہمارا وقت گذرا۔ دہلی ایئرپورٹ سے نکلتے ہی جس بات سے خوشی ہوئی وہ کثرت شجرکاری کو دیکھ کر ہوئی۔ دہلی جیسے وسیع واریض شہر کو اتنا زیادہ ہرا بھرا کرنا از خود ایک بہت بڑا کام ہے۔ دوسری جانب شہر بھر میں ہمیشہ کہر کی مانند گرد و غبار فضا میں ہوتا ہے باوجود بکثرت Greenery کے فضا نہایت Suffocative ہے وہاں کی گلیوں اور چھوٹی سڑکوں پر کچرا بہت پایا گیا۔ گلیوں اور سڑکوں پر ٹرافک کا نظام بہت خراب ہے۔ کسی ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنا دہلی شہر میں بہت دشوار ہے۔ بے ترتیب ٹرافک کے علاوہ کار پارکنگ ایک بہت دشوار کام ہے۔ لوگ آج کل ایک دوسرے سے ملنا اس لئے ترک کر رہے ہیں کہ اس بے قاعدہ ٹرافک میں کار یا اسکوٹر چلانا اور پھر مناسب پارکنگ کا نہ ملنا ایک کڑوی حقیقت ہے۔ ملازمتوں اور کاروبار کا اندازہ بھی بہت بدل گیا ہے۔
معیار زندگی کو برقرار رکھنے کے لئے لوگوں کو بہت کام کرنا پڑ رہا ہے۔ طویل وقت اور دن کے علاوہ رات کے اوقات میں لوگ کام کرنے پر مجبور ہیں۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں مستقبل کی تلاش میں اتنے مصروف ہو گئے ہیں کہ حال کا کچھ پتہ نہیں۔ اکثر نوجوان لڑکے اور لڑکی پہلی فرصت میں ملک سے باہر چلے جانا چاہتے ہیں۔
دہلی کے علاقے شاہین باغ جہاں مسلمان بہت بڑی تعداد میں آباد ہیں سن ۲۰۱۹ء میں اس علاقہ کو عالمی شہرت CAA کے احتجاج کے سبب حاصل ہوئی تھی اس علاقے کو دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی۔ یہ جان کر بہت حیرت ہوئی کہ وہ لوگ جو شہری حقوق کے چھن جانے کے خوف سے قریب چار ماہ سخت سردی میں سڑک پر کیمپ کئے بیٹھے رہے وہ شہری طرز زندگی سے بالکل ناآشا ہیں۔ شاہین باغ والوں نے تمام عمارتیں بالکل خلاف قانون تعمیرکر رکھی ہیں۔ جس انداز کی تعمیر اور جس کثرت سے وہاں آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے وہ یہ ثابت کر رہا ہے کہ اگر وہاں بسنے والوں کو شہری حقوق کی لٹکتی تلوار سے بچا بھی لیا جائے تب بھی وہ لوگ اس علاقے کو خود آپ اپنے ہاتھوں ایک بدترین Concentration Camp میں شاہین باغ کو تبدیل کر رکھا ہے۔ جگہ جگہ کچرے کے انبار، چھوٹی چھوٹی تنگ گلیاں، عمارتوں کے درمیان مناسب فاصلہ نہ ہونا، بکثرت دکانیں، ریسٹورانٹ کا قیام، صاف ستھری ہوا کا نہ ہونا، مستقل شور شرابہ، مساجد کا صاف ستھرا نہ ہونا، مچھروں کی کثرت، پارکنگ کی بہت دشواری، مطعم اور ہوٹلوں میں غذاؤں کا Non hygienic ہونا، مکھیوں کی کثرت۔ یہاں اس بات کو بتانا ضروری ہے شاہین باغ، باٹلہ ہاؤس، اوکھلا، جامعہ نگر علاقہ مسلم آبادیوں کے علاوہ تمام مسلم جماعتوں، تنظیموں، تحریکوں کے مرکزی دفاتر سے بھرا پڑا ہے۔ افسوس ان جماعتوں، تنظیموں میں وہاں کے مقامی مسلمان بہت کم شامل ہوتے ہیں۔ مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ ان جماعتوں، تنظیموں کے قائدین کو اس علاقہ کو ایک بہتر اور اچھا علاقہ بنانے کی کبھی توفیق نہیں ہوئی۔ یہ جماعتیں تنظیمیں محض ملک کے دارالخلافہ میں اپنا ایک دفتر قائم رکھنا ضروری سمجھتے۔ ان جماعتوں تنظیموں کے قائدین کو کبھی مقامی مسلم عوام سے ملنے ان کی حالت زار کو جاننے کی توفیق نہیں ہوتی۔ زمینات کی ملکیت سے لےکر عمارتوں کی تعمیر کے Legal Permits تک کا معاملہ نہایت مشتبہ محسوس ہوتا ہے۔
یہاں قائم مسلم جماعتوں تنظیموں کے درمیان کوئی آپسی تعاون نہیں ہیں۔ فرضی اور رسمی کبھی کبھار کوئی مشترکہ اجلاس ہو جاتے یا قراردادیں پاس ہو جاتی ہیں لیکن ایک دوسرے سے کوئی برادرانہ تعلقات نہیں ہیں۔
شاہین باغ اور اس کے اطراف میں بسنے والے مسلمانوں کو چاہے وہ موجودہ حالت کو مزید بدتر ہونے نہ دیں۔ حرص و حوس میں جاری Encroachment کو روکین، خود صاف صفائی کا پروگرام شروع کرین۔ مساجد کو نہایت صاف ستھرا رکھیں۔ گلیوں اور سڑکوں پہ ٹریفک کو بہتر بنائیں۔ Noise Pollution کو کم کرنے کی کوشش کریں۔
اگر ایسا نہیں کریں گے تو شہری حقوق بھی سلب ہوں گے اور بلڈوزر کے ذریعہ جائیدادیں بھی چھن جائیں گی۔ یہ محض ایک اشارہ ہے اہل خرد کے لئے۔