امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مبینہ طور پر ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کو قتل کرنے کے اسرائیلی منصوبے کو ویٹو کر دیا ہے۔لیکن چند گھنٹے پہلے اے بی سی نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے اشارہ دیا کہ وہ اس پر غور کر رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ خامنہ ای کا قتل ’تنازع کا خاتمہ‘ کر دے گا اور جوہری جنگ کو روک دے گا۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایران کے طویل عرصے سے برسر اقتدار رہنے والے رہنما خامنہ ای، جو بار بار ایران کے جوہری پروگرام کے حق میں بات کرتے رہے ہیں، کہاں کھڑے ہیں؟امریکہ کے سابق اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ برائے مشرق وسطیٰ امور جیفری فیلڈمین جو سپریم لیڈر سے ملاقات کر چکے ہیں، نے بی بی سی کے نیوز آور کو بتایا کہ ’میرے خیال میں ان کی اولین ترجیح نظام کا تحفظ ہے۔‘’لہٰذا اگر نظام کی بقا کے لیے انھیں کچھ رعایتیں دینی پڑیں۔۔۔ ’شیطان‘ یعنی امریکہ کے ساتھ بیٹھنا پڑے، تو میرا خیال ہے کہ خامنہ ای اس کے لیے تیار ہو سکتے ہیں۔‘تاہم فیلڈمین نے مزید کہا کہ خامنہ اپنی پالیسی پر ڈٹے رہنے کا فیصلہ بھی کر سکتے ہیں اور یہ جنگ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی دوڑ میں دھکیل سکتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایرانی رہنما کون سا راستہ چنتے ہیں، یہ ان ’اہم سوالات‘ میں سے ایک ہے جو اس جاری تنازع کے دوران پوچھے جا رہے ہیں۔