محمد جاوید اخترالقاسمی
اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہر اجتماعی نظام کے لئے عقلا ًاور عرفاً یہ ضروری ہے کہ اس کا کوئی سربراہ حاکم یا امیر ہو کہ اختلاف و نزاع اور باہمی کشمکش کے وقت اس کے فیصلے سے کام چل سکے، اسی طرح عائلی نظام میں جس کو عرف میں خانہ داری کہا جاتا ہے اس میں بھی ایک امیر اور سربراہ کی ضرورت ہے، عورتوں اور بچوں کے مقابلے میں اس کام کے لئے حق سبحانہ وتعالیٰ نے مردوں کو منتخب فرمایا ہے کہ ان کی علمی اور عملی قوتیں اور صلاحیت بہ نسبت عورتوں اور بچوں کے زیادہ ہیں، اور یہ ایسا معاملہ ہے کہ کوئی حقیقت پسند اس کا انکار نہیں کرسکتا،یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں ایک موقع پر بطور خاص مرد اور عورت کے درجہ کی تعیین کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ:
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَاء بِمَا فَضَّلَ اللّہُ بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ(النساء ،آیت 64)
ترجمہ :مرد عورت کے نگراں اور حاکم ہیں، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک صنف (قوی) کو دوسری صنف (ضعیف) پر بڑائی دی ہے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔(النساء ،آیت 64)
اس آیت مبارکہ میں مرد کو عورت پر قوام بنایا گیا ہے۔ عربی زبان میں قوام اس کہتے ہیں جو کسی کی حمایت، حفاظت اور کفالت کا ذمہ دار بن کر کھڑا ہو اور جو شخص ان امور کی ذمہ داری لے گا، تسلط اور حکومت اس کے لئے ضروری اور لازم ہے۔
مولانا مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے مالہ و ماعلیہ کے تحت فرماتے ہیں:
”خلاصہ یہ ہے کہ سورة بقرہ کی آیت میں
وَلِلرِّجَالِ عَلَیْْہِنَّ دَرَجَة(2/228) فرماکر اور سورہ نساء کی آیت متذکرہ میں ’الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَاء‘فرماکر یہ بتلا دیا گیا کہ اگرچہ عورتوں کے حقوق مردوں پر ایسے ہی لازم و واجب ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر ہیں اور دونوں کے حقوق باہم مماثل ہیں، لیکن ایک چیز میں مردوں کو امتیاز حاصل ہے کہ وہ حاکم ہیں اور قرآن کریم کی دوسری آیات میں یہ بھی واضح کردیا گیا کہ یہ حکومت جو مردوں کی عورتوں پر ہے محض آمریت اور استبداد کی حکومت نہیں، بلکہ حاکم یعنی مرد بھی قانون شرع اور مشورہ کا پابند ہے، محض اپنی طبیعت کے تقاضے سے کوئی کام نہیں کرسکتا، اس کو حکم دیا گیا کہ ’عاشرو ہن بالمعروف‘ (5/19) کی تعلیم ہے، جس میں اس کی ہدایت کی گئی ہے کہ امورخانہ داری میں بیوی کے مشورہ سے کام کریں، اس تفصیل کے بعد مرد کی حاکمیت عورت کے لئے رنج کا سبب نہیں ہوسکتی، چوں کہ یہ احتمال تھا کہ مردوں کی اس فضیلت اور اپنی محکومیت سے عورتوں پر کوئی ناخوشگوار اثر ہو، اس لئے حق تعالیٰ نے اس جگہ صرف حکم بتلانے اور جاری کرنے پر اکتفا نہیں فرمایا، بلکہ خود ہی اس کا حکم اور وجہ بھی بتلادی۔
- ایک وہبی، جس میں کسی کے عمل کا دخل نہیں-
- دوسری کسبی، جو عمل کا اثر ہے۔
پہلی وجہ یہ ارشاد فرمائی:’بِمَا فَضَّلَ اللّہُ بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ‘یعنی اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں خاص حکمت و مصلحت کے تحت ایک کو دوسرے پر بڑائی دی ہے، کسی کو افضل کسی کو مفضول بنایا ہے، جیسے ایک خاص گھر کو اللہ تعالیٰ نے اپنا بیت اللہ اور قبلہ قرار دے دیا، بیت المقدس کو خاص فضیلت دے دی، اسی طرح مردوں کی حاکمیت بھی ایک خداداد فضیلت ہے، جس میں مردوں کی سعی وعمل یا عورتوں کی کوتاہی و بے عملی کا کوئی دخل نہیں ہے۔
دوسری وجہ کسبی اور اختیاری ہے کہ مرد اپنا مال عورتوں پر خرچ کرتے ہیں، مہر ادا کرتے ہیں اور ان کی تمام ضروریات کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔ ان دو وجہ سے مردوں کو عورتوں پر حاکم بنایا گیا“۔(معارف القرآن 2/397-396)
آگے ایک خاص نکتہ اور حکمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:”پہلی وجہ کے بیان میں مختصر طریقہ یہ تھا کہ رجا ل اور النساء کی طرف ضمیریں عائد کرکے ”فضلھم علیہن“فرما دیا جاتا، مگر قرآن کریم نے عنوان بدل کر’بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ‘کے الفاظ اختیار کئے، اس میں یہ حکمت ہے کہ عورتوں اور مردوں کو ایک دوسرے کا بعض اور جز قرار دے کر اس طرف اشارہ دیا کہ اگر کسی چیز میں مردوں کی فوقیت اور افضلیت ثابت بھی ہوجائے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے انسان کا سر اس کے ہاتھ سے افضل ہے یا انسان کا دل اس کے معدہ سے افضل ہے ،تو جس طرح سر کا ہاتھ سے افضل ہونا ہاتھ کے مقام اور اہمیت کو کم نہیں کرتا، اسی طرح مرد کا حاکم ہونا عورت کے درجہ کو نہیں گھٹاتا، کیوں کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے مثل اعضا واجزا کے ہیں، مرد سر ہے تو عورت بدن اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس عنوان سے اس طرف بھی اشارہ کردیا گیا ہے کہ یہ افضلیت جو مردوں کو عورتوں پر حاصل ہے، یہ جنس اور مجموعہ کے اعتبار سے ہے ،جہاں تک افراد کا تعلق ہے تو بہت ممکن ہے کہ کوئی عورت کمالات علمی وعملی میں کسی مرد سے بڑھ جائے اور صفت حاکمیت میں بھی مردسے فائق ہوجائے۔دوسری وجہ اختیاری جو بیان کی گئی ہے کہ مرد اپنے مال عورتوں پر خرچ کرتے ہیں ،اس میں بھی چند امور کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، مثلاایک تو اس شبہ کا ازالہ ہے جو آیات میراث میں مردوں کا حصہ دوہرا اور عورتوں کا اکہرا ہونے سے پیدا ہوگیا ہے، کیوں کہ اس آیت نے اس کی بھی ایک وجہ بتلادی کہ مالی ذمہ داریاں تمام تر مردوں پر ہیں ،عورتوں کا حال تو یہ ہے کہ شادی سے پہلے ان کے تمام مصارف کی ذمہ داری باپ پر ہے اور شادی کے بعد شوہر پر ،اس لئے اگر غور کیا جائے تو مردوں کا دوہرا حصہ دینا اس کو کچھ زیادہ دینا نہیں ہے، وہ پھر لوٹ کر عورتوں ہی کو پہنچ جاتا ہے۔ دوسرا اشارہ ایک اہم اصول زندگی کے متعلق یہ بھی ہے کہ عورت اپنی خلقت اور فطرت کے اعتبار سے نہ اس کی متحمل ہے کہ اپنے مصارف خود کما کر پیدا کرے، نہ اس کے حالات اس کے لئے ساز گار ہیں کہ وہ محنت، مزدوری اور دوسرے ذرائع کسب میں مردوں کی طرح دفتروں اور بازاروں میں پھرا کرے۔ اس لئے حق تعالیٰ نے اس کی پوری ذمہ داری مردوں پر ڈال دی، شادی سے پہلے باپ اس کا متکفل ہے اور شادی کے بعد شوہر۔ اس کے بالمقابل نسل بڑھانے کا ذریعہ عورت کو بنایا گیا ہے، بچوں کی اور امور خانہ داری کی ذمہ داری بھی اس پر ڈال دی گئی ہے، جب کہ مردان امور کا متحمل نہیں ہوسکتا۔اس لئے یہ نہیں سمجھا جاسکتا کہ عورت کو اپنے نفقات میں مرد کا محتاج کرکے اس کا رتبہ کم کر دیا گیا ہے، بلکہ تقسیم کار کے اصول پر ڈیوٹیاں تقسیم کردی گئی ہیں، ہاں! ڈیوٹیوں کے درمیاں جو باہم تفاضل ہوا کرتا ہے وہ یہاں بھی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ان دونوں وجہوں کے ذریعہ بتلادیا گیا ہے کہ مردوں کی حاکمیت سے نہ عورتوں کا کوئی درجہ کم ہوتا ہے اور نہ ان کی اس میں کوئی منفعت ہے،بلکہ اس کا فائدہ بھی عورتوں ہی کی طرف عائد ہوتا ہے۔“(معارف القرآن 2/398-397)الغرض شریعت اسلامی میں مرد کو عورت کے مقابلہ میں یہ جو مقام ملا ہے اس کی اللہ تعالیٰ نے دو وجہیں بیان فرمائیں، ایک وہبی، خداداد اور دوسری کسبی، اختیاری، وہبی اور فطری یہ کہ: ”اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر بڑائی دی“بعض مردوں کو جسمانی و عقلی قوتیں عورت سے زائد اور بہتر عطا فرمائیں، جس کے نتیجہ میں مرد علمی و عملی کمالات میں عورت سے فائق ہوا ۔اورظاہر ہے کہ علمی و عملی کمالات ہی پر ترقی درجات کا انحصار ہے۔کسبی اور اختیاری یہ کہ مرد حکم خداوندی کی تعمیل میں عورتوں کو مہر، خوراک، پوشاک وغیرہ مہیا کرتے ہیں اور ان کی تمام خانگی ومعاشی ضروریات کے کفیل ہیں۔ اگر مردایسا نہ کرتے تب بھی وہ فطرت کے تقاضوں کے مطابق عورتوں کے نگراں اور ان کے حاکم ہی رہتے۔بہرحال ان وہبی وجوہ فضیلت کی بنا پر، اسلام نے مردوں کو عورتوں کی ذمہ داری، نگرانی اور سرداری کے مقام پر فائز فرمایا۔مولانا زین العابدین سجاد میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ مرد اور عورت کے باہم تقسیم کار کے حوالے سے لکھتے ہیں:”گھر کے مختصر سے معاشرہ میں بھی مرد کو ریاست کا درجہ عطا فرمایا،کسب معاش کا بوجھ اس کے کاندھوں پر ڈالا اور خاندان کی صلاح و فلاح اور ان کی حفاظت و حمایت کی ذمہ داری اس کے سپرد کی اور ملک و ملت کی وسیع سو سائٹی میں بھی دشمنوں سے حفاظت، تدبیر امور مملکت اور عمومی نظم و نسق کی گراں بار ذمہ داریاں مردوں کے سپرد کیں، چناں چہ جس طرح امامت کبریٰ (نبوت) اور امامت صغریٰ (نماز کی امامت) مردوں سے متعلق رہی ہیں، اسی طرح خلافت و امارت اور قضاء کے فرائض بھی مردوں ہی کے سپرد کیے گئے ہیں۔حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ:ولھذا کانت النبوة یختصہ بالرجال و کذلک الملک الأعظم بقولہ صلی الله علیہ وسلم: لن یفلح قوم ولوا أمرھم امرأة(رواہ البخاری)، وکذا منصب القضاء وغیر ذلک۔اور انہی وجوہ سے نبوت مردوں کے ساتھ مخصوص رہی ہے اور اسی طرح خلافت و امارت، کیوں کہ رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ قوم ہرگز فلاح نہ پائے گی جس نے اپنے امور مملکت عورتوں کے سپرد کردیئے۔ (بخاری)اور اسی طرح قضاء وغیرہ کے مناصب بھی مردوں سے متعلق رہے ہیں۔ (ابن کثیر)سورہ نساء کی مذکورہ آیت سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ عورت کی سربراہی ازروئے شریعت درست نہیں ہے ۔ اور عورت کی سربراہی کے خلاف قرآن کریم کی یہ نص، نص قطعی کے درجہ میں ہے، جس کی تائید صحیح بخاری کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:”وہ قوم ہر گز فلاح یاب نہیں ہوگی جس نے اپنے امور ایک عورت کے سپرد کردیئے“۔
بعض حضرات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی جنگ جمل میں شرکت اور گروپ کی قیادت سے خواتین کے لئے سیاسی اور عسکری قیادت کا جواز ثابت کرتے ہیں ،جب کہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی جنگ جمل میں شرکت قائد فوج کی حیثیت سے نہیں تھی اور نہ سپاہی کی حیثیت سے وہ شریک ہوئی تھیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقصد محض قتل عثمان کے قصاص کا مطالبہ تھا، اس کے علاوہ اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور دوسری ازواج مطہرات کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس اقدام سے اتفاق بھی نہیں تھا اور خود ام الموٴمنین حضرت عائشہ رضی اللہُ تعالیٰ عنہا کو بھی اپنی اس اجتہادی غلطی کا احساس ہوگیا تھا اور اس مہم میں شرکت پر آپ کو پچھتاوا تھا، اس لئے حضرت عائشہ رضی اللہُ تعالیٰ عنہا کے اس عمل سے عورت کے لئے حکومت و سیاسی قیادت کا جواز فراہم کرنا محض حقیقت کا منھ چڑانا ہے۔
(مہتمم مدرسہ رحمت العلوم منتی مدہوبنی بہار)