تحریر:مولانا عبد الحمید نعمانی
خاتون ، جنت سے آدم کے ساتھ رہی ہے، اس لیے اسے انسانی آبادی سے کوئی الگ نہیں کر سکتا ہے،اس کا سماج کی تشکیل و تعمیر میں بنیادی رول ہوتا ہے، زندگی کو محض جاننے یا محض جینے سے تکمیل وجود و سماج کا مرحلہ پورانہیں ہوتا ہے،زندگی کو محض جاننا ، اسے صرف جینا دونوں میں ادھورا پن ہے۔خواتین کی رفاقت و معاونت اور انہیں جان لینے کے ساتھ ہی بہتر زندگی اور گھر، سماج بامعنی ہو سکتے ہیں ، یہ معاملہ ،یکطرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ ہے ،یقینا وجود زن سے کائنات میں رنگ ہے،بہ ظاہراقبال کا تبصرہ ادھورا ہے۔
لیکن بہتر سماج کی صحیح تکمیل کے عمل کو ملا لینے کے لیے ، خواتین کی زندگی اور با رونق وجود کے لیے مرد کا وجود قدرت کے تخلیقی عمل میں لازماً موجود ہے ، سماج میں رجالی وجود تو سب کے سامنے اور ظاہر و باہر ہے، اس کے لیے کلام اقبال اور خالق کائنات کی ہدایت نامے میں الگ سے اسے سامنے لانے کی ضرورت بھی نہیں ، مرد اساس سماج میں خواتین کے وجود کو جس مختلف زوایے سے زمانہ قدیم سے آج تک دیکھا جاتا رہا ہے ، اس کے مد نظر ان کے رول کا تعین اور وقت کے تقاضوں کے تحت تجدید و تذکیر ایک ضرورت ہونے میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے ۔ اس حوالے سے کسی بھی مذہب و معاشرے کی اعلیٰ ادنی کسوٹی ، خواتین کے متعلق اس کا اختیار کردہ رویہ و عمل ہے اس سلسلے میں انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ واضح کسوٹی اور رہ نمائی رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کی ہے کہ خواتین کی عزت شرافت کی دلیل اور ان کی تذلیل کمینگی کا ثبوت ہے۔ ما اکرم النساءالاّ کریم وما اھانھنّ الّالئیم۔مرد بغیر عورت کے پورا نہیں ہو سکتا ہے وہ مرد کا حصہ و جنس ہے ۔ (النساءشقائق الرجال)خواتین کا کردار کہیں کہیں مرد سے ، تخلیقی ساخت کی وجہ سے الگ ہو سکتا ہے ۔لیکن اسے کم تر قرار نہیں دیا جا سکتا ہے ۔ اسے کم تر قرار دینے اور اپنے دائرے میں بھی تحریک وعمل پر پابندی اور غیر ضروری حد بندی سے غیر معتدل اور جارحانہ رد عمل سامنے آتا ہے۔ ایسی حالت میں مرد، عورت کے موافق و معاون کردار سے ایک بہتر معاشرے کی تشکیل اور قدرتی مقاصد کی تکمیل کی راہ مسدود ہو کر رہ جاتی ہے ۔ سماج، منزل مقصود تک، صراط مستقیم سے پہنچے گا، نہ کہ ٹیڑھی لکیر (عصمت چغتائی ) اور انگارے (رشید جہاں) پر چل کر۔
لیکن اس سے سوال ختم نہیں ہو جاتا ہے ، سوالات چاہے جتنے بھی اذیت ناک اور مشکل ہو ں، حیات ،وجود اور سماج کے متعلق تصور اور انسانی نصب العین کی حامل امت کے افراد کے لیے حل اور جواب فراہم کرنا ان کے تصور حیات و کائنات کے پیش نظر فرائض میں سے ہے ، عورت، زندگی کا زنداں (زاہدہ حنا)ہے یا روحانی و سماجی سفر حیات کا معاون و ہم سفر اور آزاد معاشرے کا آزاد اور زندہ وجود ہے، دوسری حالت میں عورت کی جو تصویر سامنے آئے گی اور تصور ابھرے گا، اس میں ”بری عوررت کی کتھا“(کشور ناہید) کی سمائی ہے اور نہ ضرورت ،اور عورت صرف خواب اور خاک کے درمیان کی ہستی نہیں رہ جائے گی بلکہ سماج اور آنکھوں کے سامنے سراپا متحرک و مفید وجود کے طور پر آئے گی اس سوال سے صحیح جواب تک رسائی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے کہ کس جبر کے حال میں پھول انگارے بن گئے اور بری عورت کی کتھا، وجود میں آکر، عورت ،زندگی کا زنداں (زاہد حنا) بن گئی ہے ۔ اس صورت حال کے ذمہ دار کون ہے؟
یوم خواتین منانے کا سلسلہ بھی تو ایک رد عمل سے شروع ہو کر یادگار دن بنا ہے ،’آدمی کی نگاہ میں عورت‘(راجندر یادو) کہنے لکھنے سے یہ سوال لازماً پیدا ہوگا کہ کیا عورت آدمی نہیں ہے؟ مرد، عورت دونوں انسان اور آدمی کے زمرے میں آتے ہیں ، یہ مسئلہ زیر بحث یقینا رہا ہے کہ آدمی کو انسان بننے کے لیے کچھ ضروری مراحل طے کرنے ہوتے ہیں آدمی کو میسر نہیں انساں ہونا (غالب)،ذات اور وجود کی سطح پر مرد عورت کی بے معنی تفریق قابل توجہ نہیں رہ جاتی ہے،یہ پوزیشن صرف بر صغیر ہندو پاک کی نہیں ہے، تاہم اپنے گھر اور پڑوسی کے تعلقات ،اولین ترجیح رکھتے ہیں ، عورتوں کے خلاف قبائلی سلوک کے خلاف، عملی قدم اٹھانے اور بین الاقوامی برادریوں اور قوتوں کو مجبور کرنے کے لیے متوجہ کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ وہ ان کے خلاف سرگرم عمل ہوں جو غیر ت کے نام پر قتل کے لیے عورت کو واسطہ بناتے ہیں ، تو بھارت میں ، کالی، درگا، لکشمی، پاروتی کو معبود کی شکل میں پوجنے والے سماج کے لوگ ،حجاب ، کے بہانے حوا ،مریم اور ہاجرہ کو تعلیم سے آراستہ ہونے کی راہ میں رکاوٹ بن کر جے شری رام کا نعرہ لگاتے ہوئے سامنے کیسے آسکتے ہیں۔
عورت کے متعلق فرقہ وارانہ ذہنیت و تفریق سے سب کا ساتھ،سب کا وکاس، بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ کی بات، قطعی بے معنی اور محض جملہ بازی بن کر رہ جاتی ہے ، "حجاب”کو حصول تعلیم کے لیے حجاب (رکاوٹ) بنانا، ملک اور سماج کی نصف آبادی، لڑکیوں (اور خواتین) کے ساتھ بڑی زیادتی، ناانصافی اور فاسد ذہن کا عملی اظہار ہے ، پردے کی سیاست اور سیاست کا پردہ دونوں سے وہ چہرے ، یقینی طور سے بے پردہ ہوجاتے ہیں ، جو خواتین کی آزادی اور ترقی کے نام پر اپنی ترقی وتمغہ کے لیے مختلف قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرنے میں ذرا بھی شرم نہیں کرتے ہیں ، ایسی حالت میں ان کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے جو لڑکیوں کی توقیر و ترقی کے ساتھ ، ان کو تعلیم سے بھی آراستہ و پیراستہ کرنا چاہتے ہیں ، آخری صحیفہ الہیٰ میں سورة النساء(نہ کہ سورة الرجال) ہونے کا پیغام بہت واضح ہے کہ خواتین ہر وقت، قابل توجہ و توقیر ہیں، نہ کہ صرف کسی ایک دن ، عورت کے حوالے سے تمام مذاہب و نظریات ،کسوٹی، پر ہیں کہ اس کے متعلق ان کا کیا رویہ ہے؟ اسی سے ان کی انسانی سماج میں افادیت و اہمیت و ضرورت طے ہوگی ، عورت کو دیوی بنا دینا، اتنا زیادہ قابل توجہ معاملہ نہیں ہے، جتنا بڑا قابل توجہ معاملہ دیو داسی اورستی ہونے سے بچانے کا مسئلہ ہے ، آزادی کے نام پر عورت کااپنی جنسی ہوس کی تسکین کے لیے استعمال ، کمینگی کی حد ہے، لیکن تحفظ کے نام پرقیدی محض اور مجبور و بے وجود ساکر دنیا بھی کوئی باتوقیر رویہ نہیں ہے ، بقاء تکریم اور تکمیل ذات کا بہتر اظہار ،قدیم و جدید دونوں تصور نسواں رکھنے والے کے سامنے ایک بڑا سوال ہے، بقاء تکریم کے ساتھ ہی تکمیل ذات کا اظہار عورت کی ذات وفطرت سے ہم آہنگ اور اس کے وجود کی صحیح تکمیل ہے ۔
اپنے دائرے میں عورت کو بہتر اظہار ذات سے روکنا راست رویہ نہیں ہے ۔ لیکن تو قیر و تکریم ذات کو نظر انداز کر کے اظہار ذات کافائدہ کیا ہے ؟آنچل کو پرچم بنالینے کامشورہ کوئی عقلمندی اور اعلیٰ تصور ذات پر مبنی نہیں ہے ، انسانی سماج کا با توقیر حصہ ہونے کے سبب، عورت کوخدا کی بستی سے باہر نہیں رکھا جا سکتا ہے، اس کا رول قدرت و فطرت کی طرف سے طے ہو چکا ہے ، اس لیے اس کے رول کو کم تر سمجھنا فطرت سے متصادم اور قدرت سے جنگ کے ہم معنی ہے، خلقکم من نفس واحدہ (ایک نفس سے پیدا کیا)کے اعلان کے بعد انسان ہونے میں برابری طے ہے ، لہذا تحقیر پر مبنی تفریق کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)