یادیں : شکیل رشید*[
ٹھیک ایک سال قبل ، آج ہی کے دن گلزار احمد اعظمی نے آخری سانس لی تھی ۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ، جمیعۃ علماء مہاراشٹر پر یتیمی کی جو کیفیت چھائی ، وہ چھَٹی نہیں ہے ۔ اِس پر کوئی بات کرنے سے قبل آئیں مرحوم کو یاد کر لیں ۔ مرحوم سے میرا کئی دہائیوں کا تعلق تھا یا یہ کہہ لیں کئی دہائیوں کا رشتہ تھا ۔ میرے بڑے ابّا سوشلٹ تھے ، اور مرحوم بھی سوشلٹ مزاج کے تھے ، دونوں ایک دوسرے سے واقف تھے ۔ حالانکہ میرے بڑے ابّا عمر میں مرحوم سے بڑے تھے اور ان سے پہلے اللہ نے انہیں بلا لیا تھا ، لیکن اس رشتے کے حوالے سے میں مرحوم گلزار احمد اعظمی کو اپنا بڑا ہی سمجھتا تھا ، اور وہ مجھے اپنے گھر کے ایک فرد ہی کی طرح عزیز رکھتے تھے ۔ ان کی موت کے بعد بھی ، دل میں ان کا وہی احترام ہے ، جو ان کی زندگی میں تھا ۔ گلزار احمد اعظمی کو پسند کرنے اور ان کا احترام کرنے کا بنیادی سبب ، اسیروں کے لیے کی گئی ان کی خدمات ہیں ۔ اتفاق سے میں اُس موقع پر موجود تھا جب انہوں نے ، اِسی ممبئی شہر میں ، حضرت مولانا ارشد مدنی سے یہ درخواست کی تھی کہ اُن اسیروں کا مقدمہ لڑا جانا چاہیے جو دہشت گردی کے مقدمات میں ماخوذ کیے گیے ہیں ، اور اس بات کو اس احسن طریقے سے حضرت مولانا کے سامنے رکھا تھا کہ حضرت مولانا نے بغیر کسی پس و پیش کی اجازت بھی دے دی تھی ، اور مرکز سے اس سلسلے میں امداد کی یقین دہانی بھی کرائی تھی ۔ یہ گلزار احمد اعظمی مرحوم کی محنت تھی ، اُن پر لوگوں کا یقین اور بھروسہ تھا کہ ماخوذین کی قانونی امداد کے لیے انہوں نے جب بھی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلایا ، انہیں مایوسی نہیں ہوئی ۔ اُن کا نعرہ تھا کہ وہ جب تک جیئیں گے اسیران میں سے کسی کو بھی پھانسی پر لٹکنے نہیں دیں گے ۔ اور اپنی زندگی میں انہوں نے ہر اس مقدمے میں کامیابی حاصل کی ، جس میں کسی اسیر کو پھانسی کی سزا سُنائی گئی ہو ۔ اگر اُسے مکمل بَری نہیں کرا سکے تو اُس کی پھانسی کی سزا کو عمر قید میں تبدیل تو کروا ہی دیا ! اپنی موت سے قبل وہ کئی اہم مقدمات لڑ رہے تھے جن میں اُن اسیروں کے مقدمات بھی تھے جنہیں پھانسی کی سزائیں سُنائی گئی ہیں ۔ اب اُن مقدمات کا کیا حال ہے ، نہیں پتا ! نہ ہی یہ پتا ہے کہ دیگر مقدمات کس موڑ پر ہیں ! پہلے تقریباً ہر روز اخباری دفاتر کو مقدمات کے بارے میں پریس ریلیزیں موصول ہوتی تھیں ، لیکن اب یہ سلسلہ بند ہو چکا ہے ! اس میں قصور نہ مہاراشٹر جمعیۃ کے صدر مولانا حافظ مسعود حسامی کا ہے اور نہ ہی جمعیۃ کے جنرل سکریٹری مولانا حلیم اللہ قاسمی کا ہے ، قصور مرکز کا ، یعنی جمعیۃ علماء ہند کا ہے ۔ افسوس کا مقام ہے کہ گلزار احمد اعظمی کے بعد مرکز نے قانونی امداد کمیٹی کی لگام اپنے ہاتھ میں لے لی ، یعنی اب کس کا مقدمہ لڑنا ہے اور کس کا مقدمہ نہیں لڑنا ہے ، اِس کا فیصلہ مرکز کرتا ہے ۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ گلزار احمد اعظمی نے مہاراشٹر جمعیۃ میں جوش کی جو ایک لہر پھونکی تھی ، اور جس طرح سے وکلاء کی ٹیم کو مضبوط کیا تھا ، وہ سب ٹھپ پڑ گیا ہے ۔ مرکز کا رویہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ کسی بھی مرکز کا ہو سکتا ہے ، آمرانہ ۔ اس میں کچھ قصور جنرل سکریٹری مولانا حلیم اللہ قاسمی کا ہے کہ انہوں نے مرکز کو من مانی کرنے دی ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کر بھی کیا سکتے تھے ۔
میں جب گلزار احمد اعظمی کے دور میں جمعیۃ کے دفتر جایا کرتا تھا تب وہ دفتر جیتا جَاگتا نظر آتا تھا ، آج اُس دفتر پر ایک طرح کی یتیمی برستی ہے ، کوئی کھل کر کام نہیں کر پاتا ، سب کو مرکز کا دھڑکا لگا رہتا ہے ۔ گلزار احمد اعظمی دو ٹوک انداز میں بات کرنے والے شخص تھے ، چاہے سامنے کوئی بھی ہو ، چاہے مولانا حضرت ارشد مدنی ہی کیوں نہ ہوں ، گلزار احمد اعظمی جس بات کو حق سمجھتے تھے ، وہ کہہ دیتے تھے ۔ اور یہی سبب تھا کہ جمعیۃ علماء مہاراشٹر نے مسلمانوں کا بھروسہ جیتا تھا ، قانونی امداد کے لیے لوگوں کی نگاہیں اس پر جمی رہتی تھیں ۔ اب شاید بھروسہ ٹوٹا ہے ، کیونکہ کورٹوں میں مقدمات کی کیا حیثیت ہے ، اس کی خبر کسی کو نہیں ہے ۔ ایک بات اور ، اب اگر مرکز سے کوئی ممبئی آتا بھی ہے تو دفتر کی طرف جھنانکتا بھی نہیں ہے ! کچھ پہلے مرکزی نائب صدر مولانا اسجد مدنی ممبئی آئے تھے ، لیکن وہ دفتر سے دور ہی رہے ۔ سُنا ہے کہ بس جمعیۃ علماء حلال فاؤنڈیشن والوں سے بات کی اور واپس دہلی روانہ ہو گیے ۔ مرحوم دفتر پر بیٹھتے تھے ، اور دفتر کو کام کاج کے لیے اہم سمجھتے تھے ، اب دفتر غیر اہم ہو گیا ہے ۔ اللہ مرحوم گلزار احمد اعظمی کو کروٹ کروٹ جنت دے ، آمین ۔
(*تجزیہ نگار ممبئی اردو نیوز کے ایڈیٹر ہیں )