بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کو اقتدار سے بے دخل ہوئے اب ایک ماہ ہو چکا ہے۔ اس عرصے کے دوران ایسا کئی مرتبہ ہوا ہے جب بنگلہ دیش کی نئی عبوری حکومت سمیت اہم جماعتوں نے پاکستان اور چین کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
بنگلہ دیش، جو ایک ماہ پہلے تک انڈیا کے قریب تھا، اب چین اور پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی وکالت کر رہا ہے اور یہاں انڈیا مخالف جذبات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔بنگلہ دیش میں پاکستان کے ہائی کمشنر سید احمد نے یکم ستمبر کو بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے وزیر ناہید اسلام سے ملاقات کی تھی۔
انگریزی اخبار ہندوستان ٹائمز نے ایک اہلکار کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس ملاقات میں ناہید اسلام نے پاکستان کے ساتھ 1971 کا مسئلہ حل کرنے پر بات کی۔ دونوں ملکوں کے درمیان گذشتہ برسوں میں 1971 کی جنگ ایک اہم مسئلہ رہا ہے
اس سے قبل 30 اگست کو پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس سے بات کی تھی اور ساتھ ہی ایک ٹویٹ میں بنگلہ دیش میں سیلاب کے باعث ہونے والی تباہ کاریوں میں امداد کی پیشکش بھی کی تھی۔
اس حوالے سے بی بی سی کی نامہ نگار منزہ انوار سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے سابق سفارتکار عبد الباسط کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان کے لیے ایک بہترین موقع ہے اور ’ہمیں اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیےان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان نے پچھلے 15-16 سالوں میں شیخ حسینہ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے کافی کوششیں کیں مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ ’پاکستان کے ساتھ تعلقات بڑھانے میں وہ خود ایک رکاوٹ تھیں اور اس کی وجہ ان کے 1971 کے اپنے تجربات تھے۔‘عبدالباسط بتاتے ہیں کہ سنہ 2002 میں جنرل پرویز مشرف نے جب بنگلہ دیش کا دورہ کیا تو اس وقت انھوں نے 1971 کے واقعات پر پھر سے معافی مانگی تھی۔
بنگلہ دیش 1971 کی جنگ کے بعد پاکستان سے الگ ہو گیا تھا۔ بنگلہ دیش کی تشکیل میں انڈیا نے اہم کردار ادا کیا تھا جبکہ چین اس وقت بنگلہ دیش کے قیام کے خلاف تھا۔
تاہم اب بنگلہ دیش کی نئی عبوری حکومت چین کی طرف قدم اٹھاتی نظر آ رہی ہے۔
ابھی چند روز قبل بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی پر سے پابندی ہٹا دی گئی تھی جو شیخ حسینہ کی حکومت میں سنہ 2013 میں لگائی گئی تھی۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی سب سے بڑی مذہبی جماعت ہے اور اس جماعت کی طلبہ تنظیم بہت مضبوط سمجھی جاتی ہے۔
شیخ حسینہ کا تختہ الٹنے والی تحریک میں اس تنظیم کے طلبا نے اہم کردار ادا کیا۔ تاہم اس پر ملک میں تشدد اور انتہا پسندی کو فروغ دینے کا الزام بھی لگایا جاتا رہا ہے۔
انڈیا میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد جماعت پر بنگلہ دیش میں ہندو مخالف فسادات بھڑکانے کا الزام بھی لگایا گیا۔ جماعت اسلامی کو عمومی طور پر انڈیا مخالف سمجھا جاتا ہے۔
ایسے میں پابندی ہٹائے جانے کے بعد چینی سفیر نے جماعت اسلامی کے رہنماؤں سے ملاقات کی تھی۔ چین کے سفیر یاؤ وین نے کہا کہ چین بنگلہ دیش کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے۔
شیخ حسینہ کی حکومت کے دوران بنگلہ دیش کا جھکاؤ چین سے زیادہ انڈیا کی طرف تھا۔ جولائی کے مہینے میں شیخ حسینہ اپنا دورۂ چین درمیان میں چھوڑ کر بنگلہ دیش واپس چلی گئیں۔
اس کے بعد شیخ حسینہ نے کہا تھا کہ انڈیا اور چین دونوں تیستا منصوبے میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن وہ چاہتی ہیں کہ انڈیا اس منصوبے کو مکمل کرے۔ ظاہر ہے چین کو یہ بات پسند نہیں آئی ہو گی۔ماہرین کی رائے میں شیخ حسینہ کا اقتدار سے باہر ہونا چین اور پاکستان کے لیے ایک موقع کی طرح ہے۔چینی سفیر اور جماعت کے رہنماؤں کی ملاقات کو بھی اسی روشنی میں دیکھا جا رہا ہے۔
انڈیا کے سابق سکریٹری خارجہ اور بین الاقوامی امور کے ماہر کنول سبل نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’چین نے بنگلہ دیش کے قیام کی مخالفت کی تھی۔ چین بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے والا آخری ملک تھا۔‘
سبل لکھتے ہیں کہ ’اسی طرح جماعت نے بھی بنگلہ دیش کے قیام کی بھی مخالفت کی تھی۔ چین کی بنگلہ دیشیوں کی حمایت کی بات کھوکھلی ہے۔ چین بنگلہ دیش جیسے مظاہروں کے بعد اپنے ملک میں کسی قسم کی اقتدار کی تبدیلی نہیں چاہے گا۔‘
بین الاقوامی تعلقات کے ماہر برہما چیلانی نے بھی سوشل میڈیا پر بنگلہ دیش کے بدلتے ہوئے رویے پر تبصرہ کیا ہے۔چیلانی لکھتے ہیں کہ ’بنگلہ دیش میں فوج کی تشکیل کردہ عبوری حکومت پرتشدد اسلام پسندوں کو ڈھیل دے رہی ہے۔ ان کے پاس کوئی آئینی حق یا اکثریت نہیں ہے۔چیلانی کہتے ہیں کہ ’شیخ حسینہ کی سیکولر حکومت میں پرتشدد مذہبی گروہوں کے خلاف کارروائی کی گئی لیکن اب حالات مختلف ہیں۔ اگر درست سمت میں کوششیں نہ کی گئیں تو بنگلہ دیش پاکستان کی دوسری شکل بن سکتا ہے۔اب شیخ حسینہ کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد اس بات کا امکان ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات پھر سے بہتر ہو سکتے ہیں۔
چین بھی ساتھ کھڑا نظر آ رہا ہے اور اس کی وجہ سے انڈیا کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ (بشکریہ بی بی سی)