عرب لیگ کا 34واں سربراہی اجلاس بغداد میں اختتام پذیر ہوا جس میں خطے میں بعض چیلنجز، خاص طور پر غزہ کی صورتحال، پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
سربراہی اجلاس میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس اور ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سانچیز سمیت عرب رہنماؤں اور حکام نے شرکت کی۔
یہ سربراہی اجلاس گذشتہ مارچ میں قاہرہ میں منعقدہ ایک ہنگامی اجلاس کے بعد ہوا، جس کے دوران عرب رہنماؤں نے غزہ کی تعمیر نو کے لیے ایک منصوبہ اپنایا۔ اس منصوبے میں فلسطینی اتھارٹی کی پٹی میں واپسی شامل ہے۔ یہ ٹرمپ کے منصوبے کا متبادل ہے جس میں غزہ کے رہائشیوں کو منتقل کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔
عراقی وزیر خارجہ فواد حسین نے سربراہی اجلاس سے چند روز قبل ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ بغداد سربراہی اجلاس قاہرہ سربراہی اجلاس کے فیصلوں کی ’حمایت‘ کرے گا۔بغداد سربراہی اجلاس ایک ایسے وقت ہوا جب غزہ پر اسرائیلی فضائی حملے جاری تھے۔
عرب سربراہی اجلاس کے حتمی بیان میں ’مسئلہ فلسطین‘ کو ’قوم کا مسئلہ‘ اور علاقائی استحکام کے لیے مرکزی حیثیت دینے پر زور دیا گیا ہے۔ غزہ میں جنگ کے خاتمے کا بھی مطالبہ کیا گیا اور عالمی برادری پر زور دیا گیا کہ وہ ’خونریزی‘ کو روکنے کے لیے دباؤ ڈالیں اور امداد کی آمد کو یقینی بنائیں۔بیان میں غزہ کی پٹی کی تعمیر نو کے لیے مالی اور سیاسی مدد کا مطالبہ کیا گیا ہے جس میں فلسطینی عوام کی نقل مکانی کی کسی بھی شکل کو ’دوٹوک انداز میں مسترد کیا گیا۔‘بیان میں ’دو ریاستی حل کے نفاذ‘ تک فلسطینی علاقوں میں اقوام متحدہ کی سرپرستی میں بین الاقوامی تحفظ اور امن فوج کی تعیناتی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
دوحہ میں مذاکرات کے نئے دور کا اعلان
حماس کا کہنا ہے کہ غزہ میں جنگ ختم کرنے کے لیے ان کی جانب سے دوحہ میں مذاکرات کے نئے دور کا آغاز کیا گیا ہے۔حماس کی جانب سے یہ اعلان اسرائیل کی جانب سے ایک بڑے فوجی حملے کے چند گھنٹے بعد سامنے آ گیا ہ
اس حوالے سے حماس کے سربراہ کے مشیر طاہر النونو نے بی بی سی کو بتایا کہ مذاکرات کا نیا دور سنیچر کے روز دوحہ میں باضابطہ طور پر شروع ہو چکا ہے۔ان کے مطابق فریقین کی طرف سے کوئی پیشگی شرائط نہیں رکھی گئیں اور تمام امور پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے کہا کہ حماس کی جانب سے مذاکرات کار قطر میں بالواسطہ مذاکرات میں اس مقصد سے واپس آئے ہیں کہ یرغمالیوں کے معاملے پر کوئی معاہدہ ہو سکے۔اسرائیل کاٹز نے اس اقدام کو اس بے لچک مؤقف سے انحراف قرار دیا ہے جو ان کے مطابق حماس نے اب تک اختیار کیا ہوا تھا