مفتی ابراہیم کی اہلیہ اسرانہ اور ان کی بیٹیوں صوفیہ اور سمیہ کے تہرے قتل کی واردات کا پردہ فاش ہوگیا یہ لرزہ خیز واردات گنگنولی مسجد کمپلیکس کے ایک کمرے میں ہفتے کی رات دیر گئے کی گئی تھی پولیس تفتیش کے مطابق۔ اس جرم کا ارتکاب دو نابالغوں نے کیا جو مسجد میں پڑھتے تھے اور قریب ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں 15 اور 16 سال ہیں۔
ڈی وی آر کو لیب میں بھیجنے اور اس کی جانچ کرنے کے بعد محلے کے ایک نابالغ کو کیمرہ بند کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ جب پولیس نے اسے گرفتار کر کے پوچھ تاچھ کی تو اس نے اعتراف کیا ،اس کی نشاندہی پرآلہ قتل راج مستری کے استعمال میں آنے والی ہتھوڑا نما بسولی گاؤں سے برآمد کی گئی
ایس پی سورج کمار رائے کے مطابق اس نے بتایا کہ وہ اور اس کا دوست مذہبی تعلیم کے لیے مسجد میں آتے تھے۔ زیادہ تر مفتی ابراہیم ان کو پڑھایا کرتے تھے اور کبھی اسرانہ ان کو پڑھاتی تھی۔ مولوی ابراہیم غلطی پر ان کو ڈانٹتے اور مارتے بھی تھے ۔ اس لیے وہ ناراض ہو گئے اور ان کی فیملی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ وہ کئی دنوں سے اس کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔انہیں معلوم ہوا کہ ابراہیم ہفتہ کے روز دیوبند گئے ہیں ، تو دوپہر کو دونوں مسجد میں آئے۔ بسولی کو مسجد میں کام کے لیے نیچے رکھا گیا تھا، جسے وہ لے گئے۔ پہلے انہوں نے اسرانہ پر حملہ کیا اور پھر لڑکیوں پر حملہ کیا۔ اس طرح تینوں کو قتل کر دیا گیا۔ انہیں قتل کرنے کے بعد وہ گاؤں کے قریب ہی گھومتے رہے۔واضح رہے کہ ہفتے کی صبح جب بچے اسکول کے لیے مسجد پہنچے تو انھوں نے خاتون اور اس کے دو بچوں کو خون میں لت پت پڑے دیکھا۔ انہوں نے شور مچایا جس سے گاؤں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ پولیس نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر لاشوں کو قبضے میں لے کر تفتیش شروع کردی۔جلد ہی اس نے تہرے قتل کے معنی کو حل کرلیا








