اتراکھنڈ کے تشدد زدہ ہلدوانی کے بن بھول پورہ میں حالات دھیرے دھیرے معمول پر آ رہے ہیں اور پولیس نے کرفیو میں نرمی کرنا شروع کر دی ہے۔ گزشتہ روز جمعیتہ علما ئے ہند اور جماعت اسلامی ہند کے مشترکہ وفد نے متاثرہ علاقہ کا دورہ کیا ۔مظلومین کے آنسو پونچھے متعلقہ افسران سے ملاقات کرکے اپنا مشاہدہ شئیر کیا اور پبلک سے ملی شکایات ان تک پہنچائیں ۔متاثرین کو ہرممکن مدد کا یقین دلایا مگر پولیس کے دباؤ اور زیادتیوں کا اتنا خوف ہے کہ بن بھول پورہ کے لوگ نقل مکانی کو مجبور ہیں
میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس کی کارروائی کے خوف سے لوگ اب نقل مکانی کر رہے ہیں اور سیکڑوں خاندان اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسرے شہروں میں چلے گئے
ہندی اخبار ’امر اُجالا‘ کی رپورٹ کے مطابق بن بھول پورہ میں اب تک تقریباً 300 خاندان اپنے گھروں کو تالے لگا کر یوپی کے مختلف شہروں میں چلے گئے ہیں۔ نقل مکانی کا عمل فی الحال جاری ہے۔ اتوار کی صبح (11 فروری 2024) کو بھی بہت سے لوگوں کو نقل مکانی کرتے دیکھا گیا۔
خبر میں بتایا گیا ہے کہ مقامی پولیس نے فسادات کے سلسلے میں تفتیش کے لیے سنیچر کو بن بھول پورہ علاقے سے کئی لوگوں کو حراست میں لیا تھا۔ اس دوران پولیس پر طاقت کے استعمال کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔ اتوار کی صبح 5 بجے سے ہی بریلی روڈ پر کئی خاندانوں کو نقل مکانی کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ وہ 15 کلومیٹر پیدل سفر کرکے لال کنواں پہنچے۔
واضح رہے کہ ہلدوانی پولیس نے اس معاملے میں اب تک 25 لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔ ان کے خلاف فساد، ڈکیتی، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور قتل سمیت مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ایس ایس پی پرہلاد نارائن مینا نے بتایا کہ شرپسندوں کے خلاف تین مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ تقریباً 5000 افراد کے خلاف کیس درج کیا گیا۔ تشدد میں ملوث تمام ملزمین کی تلاش کی جا رہی ہے۔
تازہ ترین اطلاع کے مطابق بنبھول پورہ علاقہ سے کئی لوگوں کو حراست میں لیا گیا۔ الزام ہے کہ اس دوران پولیس نے ہلکی طاقت کا استعمال بھی کیا۔ کرفیو کئی روز تک رہنے کے خوف اور پولیس کے خوف سے لوگوں نے نقل مکانی تیز کر دی ہے۔ پولیس بدمعاشوں کی شناخت کی مسلسل کوشش کر رہی ہے۔ شرپسندوں کی گرفتاری کا عمل جاری ہے۔ اتوار کو پولیس نے 30 لوگوں کو پوچھ گچھ کے بعد چھوڑ دیا۔ دوسری جانب ایک بار پھر چھاپہ مار کر 30 سے زائد افراد کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لے لیا۔