نئی دہلی:جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے آسام کے وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما کے حالیہ مسلم مخالف بیانات پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ یہ بیانات نہ صرف غیر مناسب ہیں بلکہ آئینی اور اخلاقی اصولوں سے دغابازی ہیں۔مولانا مدنی نے چیف جسٹس آف انڈیا ، وزیر داخلہ حکومت ہند اور بی جے پی صدر کو ایک تحریری خط بھی ارسال کیا ہے جس میں آسام کے وزیر اعلیٰ کے مسلسل غیر آئینی بیانات کی فہرست منسلک کی گئی ہے اور ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بلا تاخیر اس سلسلے میں کارروائی کریں اور چیف جسٹس آنڈیا سو موٹو ایکشن لیتے ہوئے اس پر روک لگائیں ۔
مولانا مدنی نے کہا کہ آئین کے تحت وزیر اعلیٰ کے عہدے کا تقاضا ہے کہ وہ تمام لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف کے ساتھ پیش آئیں ۔ لیکن وزیر اعلیٰ سرما اس بنیادی اصول کو مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے اسمبلی میں کہا کہ وہ "جانبداری برتیں گے ، یہی میرا نظریہ ہے” اور مزید کہا کہ "میاں مسلمان کو آسام پر قبضہ کرنے نہیں دیں گے۔ "یہ بیانات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب بالائی آسام میں تیس سے زیادہ شرپسندوں کے گروپ نے بنگالی مسلمانوں کو علاقہ خالی کرنے کی دھمکی دی ہے۔
مولانا مدنی نے اس بات پر زور دیا کہ ایسے نازک وقت میں وزیر اعلیٰ کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے اقدامات کرنے چاہییں، نہ کہ تقسیم کرنے والے بیانات دے کر ایسے شرپسندوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ۔ مولانا مدنی نے کہا کہ سرما کے بیانات سے نہ صرف سماجی انتشار میں اضافہ ہوگا کہ بلکہ آسام میں پہلے سے موجود نسلی اور مذہبی خلیج مزید گہری ہوگی ۔
مولانا مدنی نے کہا کہ وزیر اعلی کے ذریعہ ایک لسانی و مذہبی اقلیت کو توہین آمیز طریقے پر "میاں”کہہ کر انہیں دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، اس کے علاوہ وزیر اعلی یہ کہہ کر کہ 2041 تک آسام مسلم اکثریتی ریاست بن جائے گی، نیز کسی بھی عمل کو "جہاد” بتا کراور دیگر غیر معقول الزامات کا ذکر کرکے وہ نفرت اور فرقہ وارانہ زہر کو پھیلارہے ہیں ۔مولانا مدنی نے وزیر اعظم نریندر مودی کے اس پیغام کی یاد دہانی کرائی ہے جو انہوں نے اپنی تیسری مدت کے آغاز پر دیا تھا کہ "آئین ہمارا رہنما اصول ہے”۔ آسام کے وزیر اعلیٰ کو اس پیغام کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے اور اپنی آئینی ذمہ داریوں اور حلف کو یاد کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ریاست کے تمام لوگوں کے سربرا ہ ہیں ۔