نئی دہلی: اتراکھنڈ کے رودرپور کی رہائشی مسلم نرس کے قتل کا معاملہ اب سپریم کورٹ پہنچ چکا ہے۔ متوفیہ کی بیٹی اور بہن نے صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کے تعاون سے سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک پٹیشن دائر کی ہے۔ جمعیۃ علماء ہند نے ایک پریس بیان جاری کر کے اس کی اطلاع دی۔ بیان کے مطابق اس پٹیشن میں عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ قتل کی اس واردات کی تحقیقات سی بی آئی کے ذریعہ کرائی جائے اور متاثرہ خاندان کو معاوضہ دیا جائے۔
پٹیشن میں درخواست کی گئی ہے کہ معاملہ کی تحقیقات کو آزادانہ طور پر کرایا جائے اور ریاستی حکومت کو متوفیہ کی کمسن بیٹی کو معاوضہ دینے کا حکم دیا جائے۔ پٹیشن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قومی سطح پر میڈیکل اسٹاف کی حفاظت کے لیے گائیڈلائنس تیار کی جائیں۔ اس پٹیشن میں یونین آف انڈیا، وزارت خواتین و اطفال اور اتراکھنڈ حکومت کو فریق بنایا گیا ہے۔
پٹیشن کے مطابق، 30 جولائی کو متوفیہ اسپتال سے واپس آتے وقت لاپتہ ہو گئی تھی۔ پولیس میں رپورٹ درج کرانے کے باوجود کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور 8 اگست کو نرس کی سڑی ہوئی لاش ملی۔ لاش کی شناخت اس کے موبائل کے ذریعے کی گئی۔ ایک ملزم کی راجستھان سے گرفتاری کی گئی، مگر الزام ہے کہ پولیس نے ایک پہلے سے تحویل میں موجود نشے کے عادی شخص کو گرفتار کر لیا۔
پٹیشن میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ پولیس نے شکایت پر کئی دنوں تک کوئی کارروائی نہیں کی اور متوفیہ کے اہل خانہ کو پولیس اسٹیشن کے بار بار چکر لگانے پڑے۔ عوامی احتجاج اور غصے کے بعد پولیس نے ایف آئی آر درج کی۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ پولیس کی کارروائی مشکوک ہے اور انہوں نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ کیس کی تحقیقات سی بی آئی سے کروائی جائے۔
پٹیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ ایف آئی آر میں یہ ذکر نہیں کہ متوفیہ کی لاش کے ڈھانچہ کا سراغ کیسے ملا جبکہ اہل خانہ نے متوفیہ کو ایک ہفتے تک اسی جگہ تلاش کیا تھا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی موت کی وجہ واضح نہیں کر سکی کیونکہ لاش شدید طور پر سڑ چکی تھی۔
پٹیشن میں الزام لگایا گیا ہے کہ مقامی پولیس کی تحقیقات درست سمت میں نہیں جا رہی ہیں اور عوامی دباؤ کے تحت ملزم کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، حالانکہ یہ کیس عصمت دری اور قتل کی منظم سازش کا لگتا ہے۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشراء پر مشتمل تین رکنی بینچ اس مقدمے کی سماعت کرے گی۔
قابل ذکر ہے کہ تسلیم جہاں کی وحشیانہ عصمت دری اور قتل کی تکلیف دہ تفصیلات کولکاتہ ڈاکٹر کیس کے مترادف ہے، جس نے ملک گئی پیمانے پر غم و غصے کو جنم دیا، لیکن اس واقعے کو بڑی حد تک نظر انداز کیا گیا، میڈیا کی کم سے کم کوریج اور سول سوسائٹی اور سیاسی رہنماؤں کی جانب سے کوئی خاص ردعمل سامنے نہیں آیا