ایران کے حامی ہیکرز نے تہران کے جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کے بعد اس کے بینکوں، دفاعی ٹھیکیداروں اور تیل کی کمپنیوں کو نشانہ بنایا ہے، لیکن وہ اب تک اہم انفراسٹرکچر یا معیشت کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانے میں ناکام رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں اور سائبر ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی ٹوٹ جاتی ہے یا ایران کی حمایت کرنے والے آزاد ہیکنگ گروپ امریکہ کے خلاف ڈیجیٹل جنگ چھیڑنے کے اپنے وعدے پر قائم رہتے ہیں تو یہ جنگ کے طریقہ کار میں یہ تبدیلی آسکتی ہےکاروباری اور سرمایہ کار ایرنی بیلینی کے مطابق امریکی حملے ایران، روس، چین اور شمالی کوریا کو سائبر جنگ میں اپنی سرمایہ کاری کو مزید بڑھانے پر مجبور کر سکتے ہیں۔
بیلینی نے کہا کہ ہیکنگ کی مہم گولیوں، طیاروں یا جوہری ہتھیاروں سے بہت سستی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ فوجی طور پر غالب ہو سکتا ہے لیکن ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر اس کا انحصار ایک کمزوری ہے۔فلسطین کے حامی دو ہیکر گروپوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے امریکی حملوں کے بعد درجنوں ایئر لائنز، بینکوں اور تیل کمپنیوں کو نشانہ بنایا۔وفاقی حکام نے کہا کہ وہ امریکی نیٹ ورک سیکیورٹی کی خلاف ورزی کرنے کے لیے ہیکرز کی اضافی کوششوں سے چوکس ہیں۔اتوار کے روز، محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی نے ایران سے بڑھتے ہوئے سائبر خطرات کے بارے میں ایک عوامی انتباہ جاری کیا۔ منگل کے روز، سائبرسیکیوریٹی اور انفراسٹرکچر سیکیورٹی ایجنسی (CISA) نے بنیادی ڈھانچے جیسے پانی کے نظام، پائپ لائنز یا پاور پلانٹس میں شامل تنظیموں کو چوکس رہنے کے لیے خبردار کیا۔
چین یا روس جیسی تکنیکی صلاحیتیں نہ ہونے کے باوجود، ایران طویل عرصے سے خفیہ معلومات چرانے، سیاسی فائدہ حاصل کرنے یا خوف پیدا کرنے کے لیے سائبر حملوں کا استعمال کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔