مولانا آزاد بیک وقت ایک عظیم اسکالر، ایک ممتاز ادیب و فاضل، مفسر قرآن مجید، صحافت کے امام، شعلہ بیاں مقرر، ایک محب الوطن، ایک کامیاب سیاستداں، ہندو و مسلم اتحاد کے نقیب اور صف اول کے مجاہد آزادی تھے۔ جن کی پیدائش مکہ المکرمہ میں 11 ؍نومبر 1888ء اور وفات 22 ؍نومبر 1958ء کو دہلی میں ہوئی تھی۔ مولانا غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے، صرف 11؍سال کی عمر میں ہی داغ دہلوی اور امیر مینائی کے پاس اپنے اشعا ر بھیجنے لگے تو 12؍برس میں فارسی پر عبور حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ عربی مبادیات سے واقف ہوگئے۔
حکیم اجمل خاں کہتے ہیں کہ ’’حضرت مولانا کی زندگی مختلف اور متضاد حیثیتوں میں بٹی ہوئی ہے، وہ ایک ہی زندگی میں اور ایک ہی وقت میں مصنف بھی ہیں، مقرر بھی ہیں، مفکر بھی ہیں، ادیب بھی ہیں، مدیر بھی ہیں اور ساتھ ہی سیاسی جدوجہد کے میدان میں سپہ سالار بھی ہیں‘‘۔
پندرہ سال کا سن پار بھی نہیں ہوا تھا کہ طلبہ کا ایک خاص گروہ ان سے درس لینے لگا تھا۔ ایک جانب سرسید کے مضامین کو پڑھ کر انگریزی زبان سیکھنے کا ذوق ہوا تو دوسری طرف محمد یوسف جعفری سے فرانسیسی سیکھی اور ترکی زبان سے بھی استفادہ حاصل کیا۔ حافظہ کا یہ حال تھا جو نظر سے گزرتا ازبر ہوجاتا ہے۔ علاوہ ازیں موسیقی کا شوق بھی ایک عرصہ تک طبیعت پر غالب رہا۔
مولانا آزاد کے سن بلوغ کے پہنچنے سے قبل ہی 16؍سال کی مختصر عمر میں سیاسی تفکر کے آثار نمایاں ہونے شروع ہوگئے تھے۔ بنگال کے انقلابی لیڈر شیام سندر چکرورتی اور ان کے ساتھیوں سے باہمی ربط و ضبط کے بعد مولانا نے سیاسی میدان میں اپنے سفر کا آغاز کیا، ابتدائی دور میں ان حریت پسندوں نے مسلمان ہونے کی بنا پر انہیں مشکوک نگاہوں سے دیکھا لیکن جلد ہی آزاد نے ان کا اعتماد حاصل کرلیا۔ 1908ء میں انہوں نے مصر، عراق، شام اور ترکی کا سفر کیا۔ ترکی میں مصطفے کمال پاشا اور دیگر ممالک کے سیاست دانوں سے تبادلہ خیال کر نے کے بعد مولانا آزاد کو جہد وجہد آزادی میں حصّے لینے کے جذبے کو مزید تقویت ملی اور وطن واپسی پر اپنے اراداوں کو عملی جامعہ پہنانا شروع کر دیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔