غزہ کی پٹی کے جنوب میں واقع محصور شہر خان یونس میں آج بے گھر فلسطینیوں نے عید الاضحیٰ کی نماز ایک تباہ حال مسجد میں ادا کی … جب کہ اسرائیلی جنگ بدستور جاری ہے۔
•••جانوروں کی قربانی کے بغیر عید
نماز کے دوران لوگوں کی زبانوں پر ایک ہی دعا رہی کہ جنگ ختم ہو جائے، اور انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ قربانیوں کی عدم دستیابی کے باوجود وہ عید کی عبادات کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ادھر اسرائیلی فوج نے آج جمعے کے روز خان یونس کے جنوبی علاقوں میں پیش قدمی کی، اور اس دوران ٹینکوں کی جانب سے شدید گولہ باری کی گئی۔ پیش قدمی فضائی حملوں کے زیرِ سایہ ہوئی۔ اس دوران جو کوئی بھی ان علاقوں میں حرکت کرتا، اسے بم باری کا نشانہ بنایا جاتا۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ اسی دوران مشرقی غزہ کے علاقے "التفاح” میں اسرائیلی ٹینکوں کی ایک اور متوازی پیش قدمی بھی دیکھی گئی، جس کے ساتھ ساتھ توپ خانے سے گولے بھی داغے گئے
•••۔خوراک کی شدید قلت اور بھوک کی شدت
ان تمام عسکری کارروائیوں کے دوران انسانی بحران مزید ابتر ہو رہا ہے۔ خوراک کی امداد میں شدید رکاوٹ ہے، اور مختلف علاقوں میں بھوک کی شدت میں اضافہ ہو چکا ہے۔یہ صورت حال اس وقت مزید گھمبیر ہو گئی جب امریکہ نے غزہ میں جنگ بندی کے فیصلے کو ویٹو کر کے روک دیا۔جمعرات کے روز "غزہ ہیومینیٹرین فاؤنڈیشن” نے دوبارہ امدادی خوراک کی تقسیم شروع کی، جو بدھ کو معطل کر دی گئی تھی۔ یہ تعطل اُس واقعے کے بعد ہوا تھا جس میں منگل کے روز تنظیم کے ایک مرکز کے قریب فائرنگ سے تقریباً تیس افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔
یاد رہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان دو ماہ سے قائم کمزور جنگ بندی 18 مارچ کو ختم ہو گئی تھی۔ بعد ازاں 17 مئی سے اسرائیلی فوج نے غزہ میں اپنی کارروائیاں تیز کر دی تھیں۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ باقی یرغمالیوں کی بازیابی، غزہ پر مکمل کنٹرول اور حماس کا خاتمہ چاہتا ہے۔