کابل کی طالبان انتظامیہ کی جانب سے مقرر کیے گئے سفارت کاروں کی متحدہ عرب امارات اور قازقستان میں سفارتی اسناد کی منظوری کے بعد ماہرین نے کہا ہے کہ اس سے افغانستان کے لیے نئے سیاسی اور اقتصادی امکانات کھلنے کی توقع ہے۔
عرب نیوز کے مطابق اگست 2021 میں امریکہ اور اتحادی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد طالبان نے اقتدار سنبھالا۔ افغانستان تب سے عالمی پابندیوں کا سامنا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر غیر تسلیم شدہ طالبان انتظامیہ علاقائی ممالک بشمول پڑوسی پاکستان، انڈیا اور چین کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیائی جمہوریہ کے ساتھ دو طرفہ سطح پر معاملات کر رہی ہے۔
تین برسوں میں کابل انتظامیہ نے مشرق وسطیٰ میں خاص طور پر قطر اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات قائم کیے ہیں۔
طالبان کے ایک سرکاری وفد نے گزشتہ ہفتے ابوظبی کا دورہ کیا اور متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید سے ملاقات کی۔بدھ کو افغان وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مولوی بدرالدین حقانی نے اپنی اسناد متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ کو جمع کرا دی ہیں۔
متحدہ عرب امارات کے ایک اہلکار نے جمعرات کو روئٹرز کو تصدیق کی تھی کہ ’کابل کے سفیر کی اسناد‘ کی منظوری اس خلیجی ریاست کی جانب سے افغانستان میں پلوں کی تعمیر اور ترقی اور تعمیر نو کے منصوبوں میں مدد کرنے کے عزم کی تائید ہے۔
بدھ کو قازقستان کے نائب وزیر خارجہ علی بیک بکائیف نے کہا کہ اُن کے ملک نے محمد الرحمان رحمانی کو آستانہ میں افغانستان کے چارج ڈی افیئرز کے طور پر تسلیم کیا جو ’دونوں ممالک کے لیے تجارتی، اقتصادی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر تعاون کو بڑھانے کے اہم ہدف کی طرف پیش قدمی ہے۔‘
دیگر جن ملکوں نے طالبان کے سفارت کاروں کو قبول کیا ہے ان میں چین شامل ہے، بیجنگ نے جنوری میں کابل انتظامیہ کے سفیر کی اسناد کو باضابطہ طور پر منظور کیا۔
اس کے علاوہ قطر، پاکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور روس ایسے ممالک ہیں جہاں طالبان کے سفارت کار چارج ڈی افیئرز کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ترکیہ اور تاجکستان نے بھی طالبان عہدیداروں کو تسلیم کیا ہے لیکن ابھی تک صرف قونصلر سطح پر ہی کام کیا جا رہا ہے۔
کابل میں سینٹر فار سٹریٹجک اینڈ ریجنل سٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر صہیب رؤفی نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’یہ ممالک افغانستان کی سلامتی اور استحکام کے بارے میں فکرمند ہیں کیونکہ اس کا براہ راست تعلق پورے خطے کے استحکام سے ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس لیے یہ ممالک خطے میں حریفانہ چشمک اور طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے طالبان کی زیرِقیادت حکومت کے ساتھ رابطے استوار کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‘