نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ ’پر امید نہیں‘ کہ غزہ جنگ بندی معاہدہ برقرار رہے گا۔ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا، ’یہ ہماری جنگ نہیں ہے، یہ ان کی جنگ ہے۔ لیکن میں پر اعتماد نہیں ہوں۔‘ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ حماس کو ’کمزور‘ کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ غزہ ایک تباہ شدہ علاقے کا منظر پیش کرتا ہے۔غزہ کی پٹی میں 15 ماہ کی جنگ سے کتنا نقصان ہوا اور بحالی میں کتنا وقت لگے گا؟
امریکی صدر نے صحافیوں کو بتایا کہ اگر منصوبہ آگے بڑھتا ہے تو غزہ میں کئی ’خوبصورت چیزیں ہو سکتی ہیں‘۔’یہ سمندر [کنارے] پر ایک بہترین مقام ہے… آپ جانتے ہیں، سب کچھ بہترین ہے۔‘خیال رہے کہ اتوار کے روز اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ بندی پر عمل درآمد شروع ہو گیا ہے جس کے بعد دونوں جانب سے قیدیوں کا تبادلہ بھی ہوا ہے۔اسرائیل نے اپنے تین خواتین قیدیوں کے بدلے 90 فلسطینیوں کو رہا کیا ہے جبکہ دوسری جانب بے گھر فلسطینیوں نے غزہ میں اپنے گھروں کو واپس جانا شروع کر دیا ہے.
دوسری جانب ٹرمپ کی انتظامیہ میں شامل پینٹاگون کی عبوری ٹیم کے سربراہ رابرٹ ولکی یوکرین کی جنگ کے بارے میں صدر ٹرمپ کے نقطہ نظر کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’امریکی صدر روسی صدر ولادیمیر پوتن کو فون کریں گے اور انھیں یوکرین جنگ روکنے کے لیے کہیں گے۔‘انھوں نے مزید کہا کہ ’ٹرمپ یوکرین کے صدر زیلنسکی کو یہ کہیں گے کہ انھوں نے اپنے لوگوں کے لیے کُچھ خاص نہیں کیا ہے اور انھوں نے اپنے مُلک کی آبادی کے ایک ایسے حصے کو نظر انداز کیا ہے کہ جو طاقت بڑھانے کا باعث ہیں۔‘ولکی کا کہنا ہے کہ اگر پوتن جنگ کے خاتمے کے ٹرمپ کے مطالبے کی مخالفت کرتے ہیں تو ٹرمپ کا ایک ایگزیکٹو آرڈر حالات کو تبدیل کر سکتا ہے۔ولکی کا کہنا تھا کہ ’یورپ میں امریکی مائع قدرتی گیس کا بہاؤ شروع ہو جائے گا اور تیل کی عالمی مارکیٹ میں امریکی موجودگی تیل کی قیمتوں کو نیچے لے جائے گی جس سے روسی معیشت دیوالیہ ہو جائے گی۔ اس سے پوتن کی جنگ کے وقت کی معیشت پر ناقابل یقین اثر پڑے گا