گذشتہ ماہ 31 جولائی کو ایرانی دار الحکومت تہران میں حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کے طریقہ کار پر ابھی تک پراسراریت کا پردہ پڑا ہوا ہے۔
ایک روایت میں کہا گیا ہے کہ پاسداران انقلاب کے انتہائی محفوظ "مہمان خانے” میں ہنیہ کے کمرے کے اندر دھماکا خیز آلات نصب کیے گئے۔ دوسری روایت میں پاسداران انقلاب نے باور کرایا ہے کہ کمرے کو مختصر فاصلے کے میزائل سے نشانہ بنایا گیا
گذشتہ ماہ 31 جولائی کو ایرانی دار الحکومت تہران میں حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کے طریقہ کار پر ابھی تک پراسراریت کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ایک روایت میں کہا گیا ہے کہ پاسداران انقلاب کے انتہائی محفوظ "مہمان خانے” میں ہنیہ کے کمرے کے اندر دھماکا خیز آلات نصب کیے گئے۔ دوسری روایت میں پاسداران انقلاب نے باور کرایا ہے کہ کمرے کو مختصر فاصلے کے میزائل سے نشانہ بنایا
⌃واقعے کی اصل حقیقت ابھی تک ان دونوں روایتوں کے بیچ رائیگاں ہے۔البتہ اسماعیل ہنیہ کے بیٹے عبد السلام نے اس حوالے سے نیا انکشاف کیا ہے۔
قطر کے دار الحکومت دوحہ میں ایک انٹرویو کے دوران میں عبد السلام نے تصدیق کی ہے کہ اسماعیل ہنیہ کو ان کے موبائل فون کے ذریعے میزائل کا نشانہ بنایا گیا۔ انھوں نے بتایا کہ "ایک گائیڈڈ میزائل نے ہنیہ کے موبائل فون کا کھوج لگا کر انھیں براہ راست نشانہ بنایا۔ یہ موبائل ہنیہ نے سوتے وقت اپنے سر کے پاس رکھا تھا”۔
عبد السلام نے اس سے قبل بعض ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والے اُس دعوے کی تردید کی جس میں کمرے میں بم نصب کرنے کا بتایا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ "میں سمجھتا ہوں کہ دھماکا خیز مواد ہونے کی روایت قطعا بے بنیاد ہے”۔
عبد السلام نے واضح کیا کہ "اسماعیل ہنیہ کے کمرے سے چند میٹر کے فاصلے پر ایک دوسرے کمرے میں ذاتی محافظین اور دیگر مشیر بیٹھے تھے۔ لہذا اگر کمرے میں دھماکا خیز مواد ہوتا تو پھر یہ پوری جگہ دھماکے سے تبا ہوتی”۔
اسماعیل ہنیہ کے بیٹے نے زور دے کر کہا کہ حماس کے سربراہ کے موبائل فون نے انھیں ہدف بنانے کا عمل آسان بنا دیا۔ عبد السلام نے انکشاف کیا کہ حملے والے روز ان کے والد مسلسل اپنے فون سے کال کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ شہادت کی رات بھی انھوں نے مقامی وقت کے مطابق 10:15 پر اپنا فون استعمال کیا تھا۔
عبد السلام نے اپنی گفتگو کے اختتام پر کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ حملہ "امریکی” سرپرستی میں کیا گیا۔
یاد رہے کہ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ 31 جولائی کو ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری کے چند گھنٹے بعد اپنے ذاتی محافظ سمیت ہلاک کر دیے گئے تھے۔
ایرانی پاسداران انقلاب کے مطابق حملے میں سات کلو گرام دھماکا خیز مواد والا مختصر فاصلے کا میزائل عمارت کے باہر سے داغا گیا۔
ایران اس حملے کا الزام اسرائیل پر عائد کرتا ہے جب کہ اسرائیل نے اپنے ملوث ہونے کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے۔ امریکا نے بھی حملے کے بارے میں پیشگی علم ہونے یا اس میں ملوث ہونے کی سختی سے تردید کی ہے۔