کشمیر کے پہلگام میں دہشت گردانہ حملے میں دہشت گردوں نے جس طرح ہندو سیاحوں سے ان کا مذہب پوچھ کر انہیں نشانہ بنایا، اس پر پورے ملک میں غصہ ہے۔ ادھر اتر پردیش کے ہاتھرس سے ایک سنگین معاملہ سامنے آیا ہے۔ یہاں ایک مسلمان کاریگر مندر میں ویلڈنگ کا کام کر رہا تھا۔ الزام ہے کہ لوگوں نے مسلم کاریگر کے خلاف احتجاج کیا اور اسے کام سے نکال دیا۔ہاتھرس صدر کوتوالی علاقہ کے سرکلر روڈ پر پیش آئے واقعہ سے پورا معاملہ سامنے آیا ہے۔ ‘یوپی تک’ کے مطابق یہاں ایک مندر میں ویلڈنگ کا کام چل رہا تھا۔ ویلڈنگ کا کام ایک مسلمان کاریگر شاہد کر رہا تھا۔ الزام ہے کہ اب مسلمان کاریگر کو مندر سے نکال دیا گیا ہے۔
مسلمان کاریگر کو برطرف کرنے والے پروین ورشنے نے وہی گھسی پٹی باتیں کہی ہیں مثلا اس نے اپنا نام چھپا رکھا تھا اور اپنی شناخت چھپا کر یہاں کام کر رہا تھا۔ اس کے بعد اسے نوکری سے نکال دیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ مسلم کاریگر دہشت گردی کے واقعات کی مخالفت نہیں کرتے۔ ویڈیو میں پروین کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا گیا ہے کہ اس نے پہلگام حملے کی مخالفت نہیں کی گئی تھی، اس لیے اس کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ایک شخص کے داڑھی ہے اور ٹوپی بھی ہے تو شناخت چھپانے کا سوال کہاں سے آیا اس کی شناخت اس کا ظاہر سے ثابت ہورہا ہے پھر کاریگر عام طور سے اپنے کام میں رہتے ہیں
واضح رہے کہ پروین ورشنے مندر کے ٹرسٹی ہیں اور وہ ایسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک ہیومن رائٹس کے قومی جنرل سکریٹری بھی ہیں۔
ادھر ہاتھرس کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نے کہا ہے کہ معاملے کی جانچ کی جائے گی۔ ہاتھرس کے ڈی ایس پی نے بھی معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ فی الحال پولس معاملے کی جانچ کر رہی ہے۔