نئی دہلی/گواہاٹی 9/ستمبر
آسام میں مسلمانوں کے خلاف سرکاری ظلم وستم کا مذموم سلسلہ پوری شدت سے جاری ہے،اسی سلسلہ کے تحت کل 28مجبورمسلمانوں کو جن میں خواتین بھی شامل ہیں،غیر ملکی قراردیکرجبراًحراستی کیمپوں میں بھیج دیا گیا، اطلاعات کے مطابق انہیں فارن ٹربیونل نے غیر ملکی قراردیا تھا ان کا تعلق آسام کے بارپیٹاضلع سے ہے، حیرت کی بات تویہ ہے کہ 28 میں سے 12تو ایسے ہیں جن کے تعلق سے ٹربیونل کا فیصلہ یک فریقی حکم (ایکس پارٹی آرڈر۔ایک ایسا قانونی فیصلہ ہے جو دوسرے فریق کی غیرموجودگی میں ایک فریق کے حق میں دیدیاجاتاہے یادوسرے فریق کو قانونی کارروائی میں حصہ لینے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا)انصاف پر مبنی نہیں ہے، جبکہ 16معاملہ میں قانونی کارروائی ہوئی ہے، ان میں سے اکثران پڑھ اورغریب ہیں اورعدالت کے قانونی معاملہ سے آگاہ نہیں ہیں یہاں تک کہ 12معاملہ میں فارن ٹربیونل کی طرف سے اس وقت تک کوئی نوٹس بھی نہیں پہنچاتھا، دوسرے معاملہ کی پیروی کرنے والے وکلاء نے بھی اپنے مؤکلوں کو معاملہ کا صحیح طریقہ سے دفاع کرنے کے بارے میں درست مشورہ نہیں دیاتھا، قابل ذکر ہے کہ ان لوگوں کو 1998میں غیر ملکی قراردیا گیا تھا اس کا تاریک پہلویہ ہے کہ اس معاملہ میں جو غیر مسلم تھے ان کے تعلق سے باقاعدہ ایک نوٹیفکشن 5جولائی 2024جاری کرکے کہا گیا کہ ا ن لوگوں کوسی اے اے کے تحت شہریت دی جاسکتی،اورحکمنامہ کے مطابق بارڈپولس کو یہ آرڈرکیا گیا ہے کہ جو ہندو، کرسچن، سکھ، بدھ، جین، پارسی۔ 31 دسمبر2014 سے قبل ہندستان میں داخل ہوچکے ہیں ایسے لوگ سٹیزن شپ کے لئے اپلائی کرسکتے ہیں اوران درخواستوں پر مرکزی حکومت غورکرسکتی ہے، لہذاایسے کیسزز کو فارن ٹربیونل نہ بھیجاجائے،
اطلاعات کے مطابق پہلے ضلع کے مختلف علاقوں سے ان 28خاندانوں میں سے ایک ایک فرد کو تھانوں میں طلب کیا گیا اس کے بعد انہیں ایس پی آفس لے جایاگیا جہاں سے جبراًبس میں سوارکرکے حراستی کیمپ بھیج دیا گیا، دلیل دی جارہی ہے کہ انہیں آسام پولس کی سرحدی شاخ کی طرف سے غیر ملکی ہونے کے نوٹس بھیجے گئے پھر ان کے مقدمات کو فارن ٹربیونل بھیج دیا گیا جہاں کئی سماعتوں کے بعد ان سب کو غیر ملکی قراردیدیاگیا،جبکہ آمسو اور دوسری کئی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کو غیر ملکی کیسے قراردیا جاسکتاہے جبکہ ان کے خاندان کے دوسرے لوگ ہندوستانی ہیں، اس معاملہ پر اپنے سخت ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے مولانا ارشدمدنی نے کہا کہ آسام میں قانون کا دوہراپیمانہ استعمال ہورہاہے جس کے تحت مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتاجارہاہے، انہوں نے کہا کہ قانونی عمل کو ایمانداری سے پوراکئے بغیر یکطرفہ فیصلہ سناکر کسی شہری کی شہریت چھین لینا اورپھر اسے جبراًحراستی کیمپ بھیج دینا ایک غیر انسانی فعل ہے، مگر آسام میں بی جے پی کے اقتدارمیں آنے کے بعدسے یہی سب کچھ ہورہاہے، مولانا مدنی نے کہا کہ ہمیں جو معلومات پہنچائی گئی ہیں اس کے مطابق 12لوگوں کو یک فریقی حکم کے ذریعہ غیر ملکی قراردیاگیا ہے یعنی انہیں ٹربیونل کے سامنے اپنا موقف پیش کرنے کا موقع ہی نہیں دیاگیا دوسری طرف اس طرح کے معاملوں میں جو غیر مسلم ہیں ان کے لئے باقاعدہ نوٹیفکشن جاری کرکے سی اے اے کے تحت شہریت دینے کی بات کہی گئی انہوں نے سوال کیا کہ آخریہ کس طرح کا فیصلہ ہے کہ ایک ہی خاندان کے دوسرے لوگ توہندوستانی شہری ہوں مگر اسی خاندان کے بعض لوگوں کو غیر ملکی قراردیدیاجائے، اس کا صاف مطلب ہے کہ قانون میں کہیں نہ کہیں کوئی خامی ضرورموجودہے اوراگر ایسانہیں ہے توپھر یہ سمجھا جانا چاہئے کہ غیر ملکی قانون کا ایک مخصوص فرقہ کے خلاف غلط استعمال ہورہاہے، انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے جمعیۃعلماء آسام سے تفصیلات طلب کیں، ہمارے وکلاء کی ٹیم نے اس کاجائزہ لیا اوراب ان کے قانونی مشورہ کی روشنی میں جلدہی جمعیۃعلماء آسام اس فیصلہ کوگواہائی ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے جارہی ہے، کیونکہ یہ ایک انسانی معاملہ ہے اس لئے جمعیۃعلماء ہند انصاف کے لئے آخری حدتک قانونی جدوجہد کریگی، انہوں نے یاددلاکہ جب گواہاٹی ہائی کورٹ نے این آرسی کے دوران پنچائیت سرٹیفکیٹ کو ثبوت کے طورپر مستردکردیا تھا تویہ جمعیۃعلماء ہند ہی تھی جس نے سپریم کورٹ میں اس معاملہ کو پوری طاقت سے لڑااورکامیابی حاصل کی جس کے نتیجہ میں 48لاکھ خواتین میں سے25 لاکھ مسلم اور 23 لاکھ ہندوخواتین کی شہریت بچ گئی تھی، انہوں نے کہا کہ اگر جمعیۃعلماء ہند ایسا نہ کرتی تو گواہاٹی ہائی کورٹ کے فیصلہ سے آسام میں ایک بڑاانسانی بحران پید اہوسکتاتھا، جمعیۃعلماء ہند نے اس معاملہ کو انسانیت کی بنیادپر لڑاتھا اوراب تازہ معاملہ کو بھی وہ انسانیت کی بنیادپر لڑے گی-(پریس ریلیز)