اجمیر میں واقع خواجہ معین الدین چشتی کی تاریخی درگاہ پر جاری تنازعے میں آج ایک بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے۔ اور اس سے مقدمہ کا رخ بدل سکتا ہے ـ میدمڈیا رپورٹس کے مطابق ہندوتوا بریگیڈ کا حصہ ہندو سینا کی طرف سے داخل اس مقدمے میں، جس میں درگاہ کو قدیم شیو مندر قرار دیا گیا ہے، مرکزی حکومت نے سخت موقف اپناتے ہوئے مقدمہ خارج کیے جانے اور اسے کالعدم کرنے کی سفارش کی ہے۔
یہ سفارش اجمیر کی ضلع عدالت میں ہونے والی سماعت کے دوران مرکزی حکومت کے اقلیتی امور کی وزارت کی طرف سے دی گئی ہے۔ وزارت نے اپنے حلف نامے میں کہا کہ ہندو سینا کی طرف سے دائر کیا گیا مقدمہ قانونی طور پر ناقابل سماعت ہے اور اس میں کوئی معقول بنیاد موجود نہیں ہے جس پر عدالت غور کرے۔
وزارت نے مزید کہا کہ مقدمہ صرف عوامی توجہ حاصل کرنے کے لیے داخل کیا گیا ہے اور اس کا کوئی آئینی یا قانونی جواز نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی وزارت نے اس بات پر بھی اعتراض کیا کہ مقدمے میں حکومت ہند کو فریق نہیں بنایا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ انگریزی میں دائر مقدمے کا درست ہندی ترجمہ بھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔وزارت کے مطابق، مقدمے کے اصل متن اور اس کے ترجمے میں فرق پایا گیا ہے، جبکہ گزشتہ برس 27 نومبر کو عدالت میں ہوئی سماعت کے دوران مخالف فریقین کو اپنا مؤقف رکھنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔ ان تمام وجوہات کی بنیاد پر حکومت نے عدالت سے مقدمہ خارج کرنے کی سفارش کی ہے۔مرکزی حکومت کے اس مؤقف کو دیکھتے ہوئے عدالت نے آج کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے اس معاملے کی اگلی سماعت کے لیے 31 مئی کی تاریخ مقرر کر دی ہے۔اس معاملے پر ہندو سینا کے صدر وشو گپتا نے کہا کہ مقدمے میں اگر کوئی تکنیکی خامی پائی گئی ہے تو اسے دور کیا جائے گا
دوسری طرف، مسلم فریق نے مرکزی حکومت کے مؤقف کا خیرمقدم کیا ہے۔ درگاہ کے خادموں کی نمائندہ تنظیموں کے وکیل آشیش کمار سنگھ نے کہا کہ ہم شروع سے ہی مقدمے کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھاتے آئے ہیں۔