تحریر:ڈاکٹر سلیم خان
ارشادِ ربانی ہے:’’اللہ نے بنی اسرائیل سے پُختہ عہد لیا تھا‘‘۔یہاں امت مسلمہ کو بتایا جارہا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ سے تم نے پہلی بار عہدوپیمان نہیں کیا بلکہ اس سے قبل بنی اسرائیل بھی یہ کر چکے ہیں ۔یہ یاددہانی اس لیے کرائی جارہی کہ جو غلطی انہوں نے کی تھی اسے تم نہ دوہرانا ۔ آگے فرمایا:’’ اور ان میں بارہ نقیب مقرر کیے تھے‘‘۔ ان نگرانِ کار کی یہ ذمہ داری عہد کی پابندی میں مدد کرنے اور کوتاہی کی جانب متوجہ کرنے کی تھی۔ امت کے رہنماوں کا بھی یہی فرض منصبی ہے۔ اس اہتمام کے بعد ان کو خوشخبری سنائی گئی کہ ”میں تمہارے ساتھ ہوں‘‘بشرطیکہ :’’ تم نے نماز قائم رکھی اور زکوٰة دی اور میرے رسولوں کو مانا اور ان کی مدد کی اور اپنے خدا کو اچھا قرض دیتے رہے ‘‘۔ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کی رفاقت و نصرت کے لیے نماز ، زکوٰۃ اور انفاق لازم ہے۔ رب کائنات نے انفاق کو قرض قرار دے کر ایک اعزاز بخشا اور یقین دلایا ہے کہ یہ بڑھا چڑھا کر لوٹایا جائے گا۔
آگے یہ مژدہ سنایاگیا کہ:’’تو یقین رکھو کہ میں تمہاری بُرائیاں تم سے زائل کردوں گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ‘‘ ساتھ ہی خبردار کیا گیا کہ :’’ مگر اس کے بعد جس نے تم میں سے کفر کی روش اختیار کی تو درحقیقت اُس نے سواء السبیل گم کردی۔“ بنی اسرائیل نے صراط مستقیم سے بھٹکنے کا جو نتیجہ بھگتا وہ ان کی عبرتناک تاریخ کا حصہ ہے۔ ارشادِ حق ہے: ’’پھر یہ اُن کا اپنے عہد کو توڑ ڈالنا تھا جس کی وجہ سے ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دُور پھینک دیا اور ان کے دل سخت کردیئے‘‘۔اجتماعی مغلوبی اور انفرادی شقی القلبی کا ذکرکرنے کے بعد فرمایا گیا : ’’ اب ان کا حال یہ ہے کہ الفاظ کا اُلٹ پھیر کرکے بات کو کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں، جو تعلیم انہیں دی گئی تھی اُس کا بڑا حصّہ بُھول چکے ہیں، اور آئے دن تمہیں ان کی کسی نہ کسی خیانت کا پتہ چلتا رہتا ہے۔ ان میں سے بہت کم لوگ اس عیب سے بچے ہوئے ہیں‘‘۔
یہ آیاتِ الٰہی ایک آئینہ کی مانند ہیں کہ جس میں جب ہم اپنا عکس دیکھتے ہیں تو روح کانپ اٹھتی ہےاور نبیٔ کریم ﷺ کی یہ پیشنگوئی یاد آجاتی ہے کہ:’’ تم اپنے سے پہلے والوں کے طریقوں کی پیروی کروگے، یہاں تک کہ وہ اگر گوہ کے بل میں داخل ہوئے تو تم بھی اس میں داخل ہوگے‘‘۔ اس سنگین صورتحال میں ہمار لیے کتاب اللہ کی رہنمائی یہ ہے کہ:’’ لہٰذا انہیں معاف کرو اور ان کی حرکات سے چشم پوشی کرتے رہو، اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے جو احسان کی روش رکھتے ہیں‘‘۔یہود کے بعد نصاریٰ کے بارے میں فرمایا :’’اِسی طرح ہم نے اُن لوگوں سے بھی پُختہ عہد لیا تھا جنہوں نے کہا تھا کہ ہم ”نصارٰی“ ہیں، مگر ان کو بھی جو سبق یاد کرایا گیا تھا اس کا ایک بڑا حصّہ اُنہوں نے فراموش کردیا‘‘۔ اس خدا فراموشی کا نتیجہ یہ نکلا کہ :’’ آخر کار ہم نے ان کے درمیان قیامت تک کے لیے دُشمنی اور آپس کے بُغض و عناد کا بیج بو دیا، اور ضرور ایک وقت آئے گا جب اللہ نہیں بتائے گا کہ وہ دنیا میں کیا بناتے رہے ہیں‘‘۔ عیسائیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ ہمیشہ آپس میں ایک دوسرے سے برسرِ پیکار رہے ہیں اور اس خونریزی کی سزا ان کی منتظر ہے۔
اسلام کا پیغام امن جس وقت دنیا کو منور کررہا تھا اس دور کو مغرب تاریک زمانہ کہتا ہے کیونکہ وہ خود ظلم و جبر کے اندھیرے میں ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے تھے ۔ دو عظیم جنگیں اور اس کے بعد جوہری بم کا استعمال ان کی سفاکی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس عظیم جانی و مالی تباہی کے بعد انہوں آپس میں لڑنے کے بجائے مسلمانوں کو ا لڑانے اور ان سے لڑنے کی حکمت عملی اختیار کی تاکہ جنگ و جدال کی وحشی جبلت کو مطمئن کیا جاسکے۔ نصف صدی میں ایران سے افغانستان تک ہر محاذ پر ناکامی کے بعد یوکرین میں وہ پھرسے ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہیں ۔ناگاساکی اور ہیرو شیما کے بعد پھر ایک بار ایٹمی جنگ کے بادل منڈلانے لگے ہیں ۔ اس تباہی وبربادی سے نکلنے کی قرآنی سبیل یہ ہے کہ :’’اے اہلِ کتاب ! ہمارا رسول تمہارے پاس آگیا ہے جو کتابِ الٰہی کی بہت سی اُن باتوں کو تمہارے سامنے کھول رہا ہے جن پر تم پردہ ڈالا کرتے تھے، اور بہت سی باتوں سے درگزر بھی کر جاتا ہے۔تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے اُن کو اندھیروں سے نکال کر اُجالے کی طرف لاتا ہے اور راہِ راست کی طرف ان کی رہنمائی ہے‘‘۔ اس ہدایت الٰہی کواپنائے بغیر عیسائیوں کا باہمی جنگ و جدال کبھی ختم نہیں ہوگا۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)