اسرائیلی افواج لبنان کی حزب اللہ کے ساتھ جنگ کے لیے ہر طرح کے اسلحے سے لیس ہیں۔ تاہم یہ جنگ ہوئی تو دونوں کے لیے تباہ کن ہوگی۔ اس امر کا اظہار اسرائیل کی قومی سلامتی کے سابق مشیر نے کیا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم کے 2011 سے 2013 کے دوران سلامتی مشیر رہنے والے یاکوو آمیدرار نے کہا اسرائیلی فورسز کی پچھلے بیس سال سے ہرطرح کی جنگی تیاری موجود ہے ، یہ تیاری حزب اللہ کے لیے ہی ہے۔ اسی طرح ہمارے پاس انٹیلی جنس کا بھی بہتر نظام موجود ہے۔۔
ان دنوں جب سے اسرائیل کی غزہ میں جنگ شروع ہوئی ہے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کی سطح بہت بلند ہے۔ یہ جنگ اکتوبر 2023 سے جاری ہے۔ اس جنگ میں حماس کو ایران کے حمایت یافتہ گروپوں کی حمایت حاصل ہے جبکہ اسرائیل کے ساتھ امریکہ اور یورپی ملک پہلے دن سے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں۔ اب تک اسرائیل نے غزہ میں فلسطینیوں کو بلا امتیاز بمباری کا نشانہ بنایا ہے اور 39450 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
27 جولائی کو مجدل شمس میں ایک واقعہ پیش آیا جو کشیدگی کی تازہ لہر کا ایک اور اہم جواز بنا کر پیش کیا گیا۔ یہ واقعہ مجدل شمس میں میزائل حملے کی صورت پیش آیا، جس کے نتیجے میں 12 افراد ہلاک ہوگئے۔ اسرائیل نے اس حملے کا الزام حزب اللہ پر عاید کیا مگر حزب اللہ نے اس حملے کی تردید کی۔
تاہم اسرائیل نے اس حملے کا انتقام لینے کا فوری طور پر انتقام لینے کا اعلان کر دیا۔ 30 جولائی کو اسرائیل نے بیروت پر حملہ کیا اور حزب اللہ کے ایک سینیئر کمانڈر فواد شکر کو ہلاک کر دیا۔ حزب اللہ نے پہلے اس ہلاکت کی تردید کی مگر بعد میں کہا کیا فواد شکرکی لاش ملبے کے نیچے سے مل گئی ہے۔
اس بیروت حملے کے کچھ ہی دیر بعد تہران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کو بھی میزائل حملے کا نشانہ بنایا ۔ مگر اسرائیل نے فوری طور پر اس حملے کی ذمہ داری قبول نہ کی ہے، لیکن بین السطور اس کو اپنی بڑی کامیابی بتا رہا ہے۔
سابق اسرائیلی مشیر نے کہا ‘ تہران میں اسماعیل ھنیہ کی موت کے بعد اس کا بدلہ لینے کی باتیں انفرادی اور حکومتی سطح پر بڑھ رہی ہیں، اسرائیل سے بدلے کی صورت میں خطے کی صورتحال کشیدہ ہو جائے گی۔’
امیدرار نے کہا ‘ اگر کشیدگی مزید بڑھتی ہے تو حزب اللہ اسرائیل پر ہزاروں میزائل اور راکٹ داغنے کا دعویٰ کرے گی۔’
میرے خیال میں ‘حزب اللہ کے پاس تقریبا ایک لاکھ راکٹ اور میزائل ہیں، یہ دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ لیکن شاید ریاستہائے متحدہ امریکہ سے نہیں ۔ ہمارے پاس اپنا میزائل شکن نظام ہے جسے ہم اپنے نقصان کو کم کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔ لیکن اس کے باوجود اسرائیل کے اندرکافی نقصان ہوگا۔’
انہوں نے ‘العربیہ’ کو بتایا ‘جنگ کی صورت میں اسرائیل کو زمینی افواج کو غزہ میں حماس سے زیادہ مضبوط قوتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عمدہ اور زیادہ جدید ٹینک شکن میزائل وغیرہ بھی ہوں گے۔ اس لیے یہ زمینی جنگ غزہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ پیچیدہ ہوگی۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ طویل جنگ ہوگی۔ اس میں کئی سرخ لکیریں عبور ہو جائیں گی۔’