ایران نے امریکی معائنہ کاروں( انسپکٹرز) کو اپنی جوہری تنصیبات کے معائنے کی اجازت دینے پر غور کا عندیہ دے دیا۔عالمی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ایران نے بدھ کو کہا ہے کہ اگر امریکا کے ساتھ کوئی معاہدے طے پاتا ہے تو وہ اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے امریکی انسپکٹرز کو اپنی تنصیبات کے معائنے کی اجازت دینے پر غور کر سکتا ہے۔
ایران کے اٹامک انرجی آرگنائزیشن کے سربراہ محمد اسلامی نے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی ( آئی اے ای اے ) کا حوالہ دیتے ہوئے صحافیوں سے کہا،’ ان ممالک کے معائنہ کار ہمارے لیے کبھی قابل قبول نہیں رہے جو ہمارے مخالف تھے اور برسوں سے غیر اصولی رویہ اختیار کرتے رہے’انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی معاہدہ طے پاتا ہے اور تہران کے مطالبات کو مدنظر رکھا جاتا ہے تو ایران ’ ایجنسی کے ذریعے امریکی معائنہ کاروں کو قبول کرنے پر دوبارہ غور کرے گا۔’واضح رہے کہ مغربی طاقتیں طویل عرصے سے ایران پر جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوشش کا الزام لگاتی رہی ہیں جبکہ تہران اس دعوے کی مسلسل تردید کرتا رہا ہے، اور اصرار کرتا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پرامن اور سویلین مقاصد کے لیے ہے۔
تہران اور واشنگٹن کے درمیان حالیہ ہفتوں میں اس مسئلے پر مذاکرات کے پانچ دور ہوئے ہیں، جو 2018 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکا کے 2015 کے جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کے بعد سے ان کا اعلیٰ ترین سطح کا رابطہ ہے۔جنوری میں دوبارہ عہدہ سنبھالنے کے بعد سے، ٹرمپ نے تہران کے لیے اپنی ’ زیادہ سے زیادہ دباؤ’ کی پالیسی پر دوبارہ عمل درآمد شروع کر رکھا ہے جس میں ایران پر نئی پابندیاں عائد کرنا شامل ہے۔
وزات خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے بدھ کو کہا کہ ’ مذاکرات کوے اگلے دور کے وقت اور مقام کے حوالے سے مشاورت جاری ہے، اور ایک بار حتمی شکل دینے کے بعد، ان کا اعلان عمان کی طرف سے کیا جائے گا-
اقابل مذاکرات‘
مذاکرات کا خیرمقدم کرتے ہوئے، ایرانی حکام نے بارہا یورینیم کی افزودگی کو ’ ناقابل مذاکرات’ قرار دیا ہے، امریکی حکام، بشمول مذاکراتی عمل میں واشنگٹن کے نمائندے اسٹیو وٹکوف نے بھی عوامی طور پر اسے ایک سرخ لکیر قرار دیا ہے۔محمد اسلامی نے یہ بھی کہا کہ ( مذاکرات میں) افزودگی کا معاملہ ’ بالکل بھی نہیں اٹھایا گیا’ اور ’ افزودگی کی شرح کو سیاسی طور پر نہیں اٹھایا جانا چاہیے۔’انہوں صحافیوں کو بتایا، ’ افزودگی کا فیصد استعمال کی قسم پر منحصر ہے، جب بہت زیادہ افزودہ یورینیم تیار کیا جاتا ہے، تو اس کا لازمی مطلب فوجی استعمال نہیں ہوتا