لبنان میں "حماس” کے نمائندے احمد عبد الہادی کا کہنا ہے کہ تنظیم غزہ میں فائر بندی کے لیے 15 اگست کو دوحہ یا قاہرہ میں مقررہ مشاورت میں شریک نہیں ہو گی۔
میڈیا سے گفتگو میں عبد الہادی نے واضح کیا کہ "حماس” عام طور پر فائر بندی مذاکرات کے خلاف نہیں تاہم ابھی یہ ممکن نہیں ہے کیوں کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو پوری طرح جارحیت روک دینے والے معاہدے تک پہنچنے میں دل چسپی نہیں رکھتے ہیں۔
نمائندے کے مطابق نیتن یاہو دھوکہ دے رہے ہیں، وہ جنگ کو طول دینا چاہتے ہیں بلکہ خطے کی سطح تک پھیلانا چاہتے ہیں۔ اس کا مطلب ہوا کہ وہ مذاکرات کو ہماری قوم کے خلاف جارحیت جاری رکھنے اور نئے قتل عام کے ارتکاب کے لیے ڈھال بنا رہے ہیں
عبد الہادی نے مزید کہا کہ "حماس” اس صورت میں مذاکرات کی میز پر واپس آئے گی اگر اسرائیل نے جنگ بندی سے متعلق جولائی میں تنظیم کی جانب سے پیش کی گئی تجویز کے حوالے سے "مضبوط عزم” ظاہر کیا۔
اس سے قبل اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر نے کل منگل کے روز کہا تھا کہ "یہ دعویٰ کہ وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے 27 مئی کے منصوبے میں نئے مطالبات شامل کیے ہیں، جھوٹ ہے”۔ دفتر کا دعویٰ ہے کہ حماس نے غزہ میں یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے میں 29 تبدیلیاں کی ہیں۔
نیتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ 27 مئی کی دستاویز کا مسودہ ایک متفقہ طریقہ کار پیش کرنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے تا کہ صرف نہتے شہریوں کی غزہ پٹی کے شمال میں واپسی یقینی بنائی جا سکے۔
مصر، قطر اور امریکا کی قیادت نے 9 اگست کو ایک مشترکہ بیان میں اسرائیل اور حماس کو دعوت دی تھی کہ وہ غزہ کی پٹی میں فائر بندی کے لیے 15 اگست کو دوحہ یا قاہرہ میں مذاکرات کا دوبارہ آغاز کریں۔تین روز قبل 11 اگست کو حماس نے ثالثی فریقوں پر زور دیا کہ وہ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے لیے ایک نمایاں منصوبہ پیش کریں اور اسرائیل کو اس پر عمل درآمد کا پابند بنائیں۔