الہ آباد ہائی کورٹ نے متھرا کے مشہور شاہی عیدگاہ و شری کرشن جنم بھومی کیس میں اہم فیصلہ سنایا ہے۔ اس معاملے میں ہندو فریق نے 18 درخواستیں دائر کی تھیں اور شاہی عیدگاہ مسجد کی زمین کو ہندوؤں کی ملکیت قرار دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہندو فریق نے وہاں عبادت کرنے کا حق بھی مانگا۔
ہندو فریق کی درخواست کے بعد مسلم فریق نے عبادت گاہوں کے ایکٹ، وقف ایکٹ، حد بندی ایکٹ اور مخصوص قبضہ ریلیف ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ہندو فریق کی درخواستوں کو خارج کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن الہ آباد ہائی کورٹ نے مسلم فریق کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب الہ آباد ہائی کورٹ میں ہندو فریق کی 18 درخواستوں کی ایک ساتھ سماعت ہوگی
الہ آباد ہائی کورٹ نے آرڈر 7 رول 11 پر اعتراض کرنے والی مسلم فریق کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔ اب ہندو فریق کی درخواستوں پر عدالت میں سماعت ہو سکتی ہے۔
ہائی کورٹ کے اس قدم سے مسلم فریق کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ درحقیقت مسلم فریق نے درخواستوں کی برقراری کو چیلنج کیا تھا۔ عدالت نے سول سوٹ کے برقرار رہنے سے متعلق ہندو فریق کی درخواستیں منظور کر لیں۔ اب شری کرشنا بھومی کیس میں مقدمہ چلے گا اور مزید درخواستوں کی سماعت جاری رہے گی۔ یہ فیصلہ جسٹس میانک کمار جین کی سنگل بنچ نے دیا ہے۔۔
ہندو فریق کے وکیل وشنو شنکر جین نے کہا، "الہ آباد ہائی کورٹ نے شاہی مسجد کے 7/11 معاملے میں دائر درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ یہ عبادت گاہیں ہیں، تمام معاملات میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ کیس کی اگلی سماعت 123 اگست کو ہوگا، ہندو فریق سپریم کورٹ جائے گا اور سپریم کورٹ سے سروے آرڈر پر عائد پابندی ہٹانے کا مطالبہ کرے گا۔
ہندو فریق کی جانب سے دائر درخواستوں میں شاہی عیدگاہ مسجد کی اراضی کو ہندو قرار دینے اور انہیں وہاں عبادت کا حق دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ مسلم فریق نے اس کے رد کی دلیل پیش کی تھی۔ مسلم فریق نے اس کے لیے عبادت گاہوں کے قانون اور حد بندی ایکٹ کا مطالبہ کیا ہے۔ وقف ایکٹ، مخصوص قبضہ ایکٹ کا حوالہ دیا گیا۔ اس معاملے پر 6 جون کو سماعت ہوئی تھی، جس پر ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔