محمد آباد:مختارانصاری کے اہل خانہ نے مختار انصاری کی میت کو دفنانے میں ایک بار بھی جلدی نہیں کی۔ انصاری خاندان نے میت کو پوسٹ مارٹم ہاؤس سے لانے سے لے کر تدفین تک گھر میں رکھنے تک احتیاطی تدابیر اختیار کیں۔ اس کام میں ہر جگہ پولیس انتظامیہ کی مدد لی گئی۔ اس کی وجہ اب سامنے آ رہی ہے۔
امراجالا کی رپورٹ کے مطابق مختار انصاری کے بڑے بھائی ایم پی افضل انصاری نے دعویٰ کیا ہے کہ مختار کی نعش کو خاص طریقے سے دفنایا گیا ہے۔ اس وجہ سے 20 سال بعد بھی اگر ضروری ہواتو نعش کے ناخن اور بالوں کا معائنہ کر کے موت کی وجہ کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ تاہم انہوں نے اس مخصوص ٹیکنالوجی کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ مختار کا انتقال دل کا دورہ پڑنے سے ہوا۔ پوسٹ مارٹم میں جسم کے تمام اہم اعضاء جیسے دماغ، دل، جگر، گردے، پھیپھڑوں، آنتوں کا بغور جائزہ لیا گیا تاکہ موت کی وجہ معلوم کی جا سکے۔ اس کی ویڈیو گرافی بھی کی گئی۔ ہر عضو کا کئی طریقوں سے معائنہ کیا گیا۔ معدے سے نکالے گئے کھانے کے مواد سے وسرا بھی جمع کیا گیا۔ یہاں پوسٹ مارٹم ہونے سے پہلے ہی انصاری خاندان نے نعش کو دفنانے کے لیے اپنے آبائی قبرستان کا انتخاب کیا۔ ان کی دیکھ بھال مجاور افروز انصاری کرتے ہیں۔ مختار انصاری کی میت کے مطابق قبر کی لمبائی 7.6 فٹ، گہرائی 5 فٹ اور چوڑائی 5 فٹ رکھی گئی تاکہ مستقبل میں ضرورت پڑنے پر تحقیقات میں کوئی مسئلہ نہ ہو۔ یہی نہیں جب نیت پہنچی تو صحن میں فریزر رکھ دیا گیا۔
مختار انصاری کی موت پر ایم پی افضل انصاری نے بڑا بیان دیا ہے۔ ایک خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر دل کا دورہ پڑا ہے تو بھی مختار انصاری کو زہر دینے کی وجہ سے ہوا ہوگا۔ دعویٰ کیا گیا ہے کہ 19 تاریخ کو زہر دیا گیا تھا۔ ممبر پارلیمنٹ نے کہا کہ مختار انصاری نے خود عدالت میں الزام لگایا تھا کہ زہر دیا جا رہا ہے۔ عدالت نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی۔ ہم نے جیل سپرنٹنڈنٹ سے علاج کے لیے کہا تھا اور انھوں نے علاج کی یقین دہانی کرائی تھی۔انہوں نے بتایا کہ میں نے 20 تاریخ کو رات کو ان سے بات کی، لیکن 26 تاریخ کی صبح مجھے اطلاع ملی کہ مختار انصاری کو میڈیکل کالج میں بھرتی کیا گیا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، کیونکہ اس نے زہر دیے جانے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ ہم ان سے ملنے گئے تو انہوں نے بتایا کہ 19 تاریخ کو زہر دیا گیا ہے۔
ادھر آئی ایم ایس بی ایچ یو کے فارنسک ڈپارٹمنٹ کے ڈاکٹر منوج کمار کا کہنا ہے کہ اگر کسی میت کو قبر میں رکھا جائے تو چھ ماہ کے اندر پٹھے پگھلنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد ہڈیاں اور دانت پگھل جاتے ہیں۔ انہیں تحلیل ہونے میں تقریباً دس سال لگتے ہیں۔