نئی دہلی:آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے دعوے بی جے پی کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ آج یہاں مسلم مذہبی جماعتوں کی مشترکہ پریس کانفرنس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ ہم نے ٹی ڈی پی کے چندرابابو نائیڈو اور جے ڈی (یو) کے نتیش کمار سے ملاقات کی اور دعویٰ کیا کہ دونوں لیڈروں نے بورڈ کو یقین دلایا ہے کہ ان کی جماعتیں وقف (ترمیمی) بل کی مخالفت کریں گی-پریس کانفرنس کے میں ان کے علاوہ جمعیۃ علماء ہند اور دیگر مسلم تنظیموں کے عہدیدار موجود تھے۔ اس دوران مسلم تنظیموں نے متفقہ طور پر کہا کہ اگر یہ بل واپس نہیں لیا گیا تو ملک گیر تحریک چلائی جائے
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپوزیشن جماعتوں سے ملاقات کی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہم نے چندرا بابو نائیڈو سے بھی ملاقات کی، جنہوں نے ہمیں یقین دلایا کہ وہ اس بل کی مخالفت کریں گے۔
ہم نے کل نتیش کمار سے ملاقات کی انہوں نے اور آر جے ڈی کے تیجسوی یادو نے بھی ہمیں یقین دلایا ہے کہ ان کی پارٹی اس بل کی مخالفت کرے گی-
جب مولانا رحمانی سے دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی گفتگو کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم اس کی تفصیل نہیں بتا سکتے۔ یہ ہندو مسلم مسئلہ نہیں ہے، یہ انصاف اور ناانصافی کا مسئلہ ہے۔ لہذا ہم چاہتے ہیں کہ تمام سیکولر پارٹیاں بشمول بی جے پی کی حلیف جماعتیں انصاف اور سیکولرازم کے خیال میں ہمارا ساتھ دیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہمیں ابھی تک جے پی سی سے کوئی بلاوا نہیں آیا ہے اگر ایسا ہوا تو مسلم تنظیمیں جمعیتہ علما ئے ہند،جماعت اسلامی ہند اور جمعیتہ اہل حدیث وغیرہ اپنا موقف رکھیں گی-
بہرحال ’وقف (ترمیمی) بل 2024‘ کو غیر دستوری، غیر جمہوری، غیر منصفانہ اور شریعت مخالف قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کی نمائندہ تنظیموں نے مشترکہ طور پر کہا ہے کہ یہ بل اوقاف کے مفاد کے خلاف ہے، اس لیے ہم اسے مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں، اور حکومت کو خبردار کرتے ہیں کہ اس پورے بل کو واپس لیا جائے۔ بصورت دیگر ملک گیر سطح پر اس کے خلاف مہم چلائی جائے گی۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ساتھ جمعیۃ علماء ہند، جماعت اسلامی ہند، جمعیت اہل حدیث کے لیڈروں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ وقف ایکٹ 1995 میں تبدیلیوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اس سے وقف کو نقصان پہنچے گا اور وقف جس کمیٹی کی املاک ہے اس سے یہ جائیداد چھین لی جائے گی۔
بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ وقف کے سلسلے میں ایک اصل ہے کہ اس کو استعمال کی بنا پر ’وقف بائی یوزر‘ مانا جائے گا جس میں مسلمانوں کے ساتھ ہندو مذہبی مقامات بھی شامل ہیں۔ لیکن نئے بل میں وقف بائی یوز کے حوالے سے بھی دستاویز مانگے گئے ہیں جو سراسر غلط ہے۔ ایسی صورت میں انہوں نے سوال کیا کہ آج اگر کوئی دہلی کی شاہی جامع مسجد کے دستاویز مانگےتو کیا یہ درست ہوگا؟
مولانا خالد سیف اللہ نے کہا کہ اگر وقف بائی یوزر کو تسلیم نہیں کیا جائے گا تو تمام چیزیں خطرے میں پڑ جائیں گی اور مسلمانوں سے تمام اوقاف چھین لئے جائیںانہوں نے بتایا کہ نئے بل کے مطابق وقف کونسل میں 13 غیر مسلم اراکین ہوں گے اور وقف بورڈ میں 7 غیرمسلم ارکان ہوں گے۔ اس کے علاوہ وقف کا مکمل اختیار کلکٹر کو دے دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بل کے ذریعہ وقف میں مرکزی حکومت کی مداخلت کا راستہ کھولا گیا ہے جسے ہم ہرگز قبول نہیں
پریس کانفرنس میں موجود جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت جان بوجھ کر مسلم مخالف فیصلے کر رہی ہے، اس لیے ہمیں بحیثیت مسلمان اس پر احتجاج کرنے کا پورا حق ہے
مولانا مدنی کہا کہ ملک کے اقتدار اعلیٰ پر بیٹھا آدمی صرف الیکشن کے لیے نفرت کے اسباب پیدا کرے، یہ کسی بھی ملک کے لئے خطرناک ہےمولانا مدنی کا کہنا ہے کہ حکومت کی نیت میں کھوٹ ہے
پریس کانفرنس میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان قاسم رسول الیاس، بورڈ کے جنرل سکریٹری فضل الرحیم مجددی، جمعیۃ اہل حدیث کے صدر مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی، جماعت اسلامی ہند کے امیر مولانا سعادت اللہ حسینی، جمعیۃ علماء ہند کے پریس سکریٹری مولانا فضل الرحمان قاسمی بھی موجود تھے