نئی دہلی: تیزی سے بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاست (جیو پالیٹکس)میں ہندوستان کے سیکورٹی خدشات اب ایک نئی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ اب وہ وقت نہیں رہا جب سرحدوں پر صرف پاکستان اور چین سے خطرہ تھا۔ جنرل بپن راوت نے جس ‘2.5 فرنٹ وار’ کے بارے میں ایک دہائی قبل بات کی تھی، وہ اب ‘3.5 فرنٹ وار’ میں تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس کی وجہ حال ہی میں چین کے شہر یوناو کے کنمنگ میں پاکستان، چین اور بنگلہ دیش کا پہلا سہ فریقی اجلاس ہے۔ چین، پاکستان اور بنگلہ دیش کے حکام کے درمیان 19 جون کو ہونے والی یہ ملاقات پہلی بار لیکن اس کا پیغام بڑا تہے۔ چین کے نائب وزیر خارجہ سن ویڈونگ، بنگلہ دیش کے قائم مقام سیکرٹری خارجہ روح العالم صدیقی اور پاکستان کے ایڈیشنل سیکرٹری خارجہ عمران احمد صدیقی نے اجلاس میں شرکت کی۔ پاکستان کی سیکرٹری خارجہ آمنہ بلوچ نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔اس ملاقات کو ‘ترقی دوست سہ فریقی مکالمہ’ (ڈیولپمنٹ فرینڈلی ٹرپل ڈائیلاگ) کا نام دیا گیا، لیکن اس کا سفارتی مفہوم اس سے کہیں آگے ہے۔ ملاقات کے بعد جاری ہونے والے بیان میں ‘جنوبی ایشیائی خطے میں عوام پر مرکوز ترقی’ کے بارے میں بات کی گئی۔ لیکن بنگلہ دیش کی انتظامی قیادت اور چین کے ساتھ اس کی حالیہ قربت کو دیکھتے ہوئے، ہندوستان کے لیے یہ سفارت کاری سے زیادہ اسٹریٹجک صف بندی کی طرح لگتا ہے۔
مارچ 2025 میں بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس نے اپنے دورہ چین کے دوران بنگلہ دیش کو چین کا سیاسی اور اقتصادی شراکت دار قرار دیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ چین کو بنگلہ دیش کے راستے شمال مشرقی ہندوستان کے بازار تک پہنچنے کا راستہ بنانا چاہئے۔ یہ وہ بیان تھا جس کے بعد بھارت نے 17 مئی کو بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل مصنوعات پر پابندی لگا دی تھی۔ جب تک شیخ حسینہ وزیر اعظم تھیں بنگلہ دیش کو ہندوستان کا سٹریٹجک دوست سمجھا جاتا تھا۔ تاہم حسینہ کی بغاوت کے بعد محمد یونس کی قیادت میں عبوری حکومت نے پاکستان اور چین کے ساتھ قربتیں بڑھا دی ہیں۔
•••رکھائن کوریڈور: ایک اور ابھرتا ہوا ٹینشن زون
بنگلہ دیش اور امریکا کے درمیان حالیہ مذاکرات میں روہنگیا بحران پر بات ہوئی۔ اس کے ساتھ بنگلہ دیش کے قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر خلیل الرحمان نے میانمار کے صوبہ رخائن کے لیے ‘انسانی ہمدردی کی راہداری’ کی وکالت کی ہے۔ یہ علاقہ ہندوستان، چین اور بنگلہ دیش کے لیے اسٹریٹجک نقطہ نظر سے بہت حساس ہے۔ امریکہ بھی اب اس خطے میں دلچسپی ظاہر کر رہا ہے
ہندوستان کو اسٹریٹجک نقطہ نظر کو پیچھے چھوڑ کر نئی حقیقتوں کو سمجھنا ہوگا۔ اسے بنگلہ دیش سے متعلق معاملات کو سفارتی اور دفاعی دونوں محاذوں پر زیادہ سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ شمال مشرقی ہندوستان میں رابطے، اقتصادی ناکہ بندی اور سرحدی نگرانی کو نئے سرے سے مضبوط کرنا ضروری ہوگا۔ ‘3.5 فرنٹ وار’ اب کوئی خیالی نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ اور بھارت کو اس کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
چین نے حالیہ مہینوں میں جنوبی ایشیا میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ مئی 2025 میں، چین نے پاکستان اور افغانستان کے ساتھ ایک اور سہ فریقی اجلاس کی میزبانی کی جس میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کو افغانستان تک توسیع دینے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ بھارت نے اس اقدام کی مخالفت کی کیونکہ CPEC جموں و کشمیر کے ان حصوں سے گزرتا ہے، جسے بھارت اپنا علاقہ سمجھتا ہے۔
کنمنگ میں منعقدہ اس سہ فریقی اجلاس میں چین نے علاقائی تعاون کو فروغ دینے اور بی آر آئی کے تحت اپنے منصوبوں کو تیز کرنے کے ارادے کا بھی اظہار کیا۔ سن ویڈونگ نے کہا کہ چین ہمسایہ ممالک کے ساتھ مشترکہ مستقبل کی کمیونٹی کی تعمیر کے لیے پرعزم ہے۔
یہ سہ فریقی اجلاس جنوبی ایشیا میں بدلتے ہئی جیو پالیٹکس کا اشارہ دیتا ہے۔ جہاں چین اپنا علاقائی اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے نئے اتحاد بنا رہا ہے، وہ بھارت کے لیے ایک اسٹریٹجک چیلنج ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ہندوستان کو علاقائی تعاون کو فروغ دینے اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے فعال سفارت کاری کو اپنانا ہوگا۔