تحریر:روہت کھنہ
ذرا ان تصویروں پر ایک نظر ڈالیں – یہ لڑکی حجاب میں، یہ سکھ طالبہ پگڑی میں اور یوپی کے سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ اور بی جے پی ایم پی پرگیہ ٹھاکر بھگوا کپڑوں میں۔ کیا لڑکی ہے یا لڑکا یا یوگی یا پرگیہ ٹھاکر ملک کے قانون کو توڑ رہے ہیں؟ یا بھارت کے آئین کی خلاف ورزی کررہے ہیں؟ نہیں۔ بھارت کا سیکولر قانون یوگی آدتیہ ناتھ کو بھگوا کپڑوں میں یوپی کے وزیراعلیٰ کا کام کرنے کی اجازت دیتا ہے، پرگیہ ٹھاکر کو بھگوا کپڑوں میں پارلیمنٹ جانے کی اجازت دیتا ہے۔ یہی قانون سکھ طلباء کو پٹخا، پگڑی پہن کر اسکول جانے، کالج جانے اور کام کرنے کی بھی اجازت دیتا ہے۔ تو پھر ہم کرناٹک میں مسلم لڑکیوں کے ساتھ ان کے اسکولوں اور کالجوں کے باہر ایسا ہوتا کیوں دیکھ رہے ہیں؟ انہیں حجاب اتارنے پر کیوں مجبور کیا جا رہا ہے؟
یہ جو انڈیا ہے نا… ہمارا قانون، ہمارا آئین نہیں بدلاہے۔ تو ان لڑکیوں کو، جنہوں نے باعزت طریقے سے اپنے حجاب اتارنے سے انکار کر دیا، کالج میں داخلے سے کیوں منع کیا گیا؟
اُڈپی اور کرناٹک کے دیگر شہروں میں ان لڑکیوں سے ان کے تعلیم کے بنیادی حق کے ساتھ ساتھ ان کے مذہبی اصولوں کے مطابق لباس پہننے یا محض اپنی پسند کے کپڑے پہننے کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔جب کرناٹک کی ایک ٹیچر سے حجاب اتارنے کو کہا گیا تو انہوں نے نوکری سے استعفیٰ دے دیا۔ ان کے حقوق کا تحفظ تو دور کی بات، ریاستی حکومت انہیں ان کے حقوق سے محروم کرنے کی ذمہ دار ہے۔
اور یہ افسوسناک ہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ بھی جوابدہ ہے۔ 10 فروری کو اپنے عبوری حکم نامے میں کہا گیا کہ- ’ہم تمام طالب علموں کو، مذہب یا عقیدے سے قطع نظر، زعفرانی شال، اسکارف، حجاب، مذہبی جھنڈا یا دیگر اسی طرح کے ملبوسات کو اگلے احکامات تک پہننے سے منع کرتے ہیں۔‘
لیکن ہائی کورٹ نے زعفرانی اسکارف کا حجاب سے موازنہ کیسے کیا؟ یہ اسکارف ایک تماشا تھا، جو کچھ دنوں تک چلتا رہا، جب کہ مسلمان طالبات برسوں سے حجاب پہن رہی ہیں۔ زعفرانی شال والے طالب علموں کے لیے، جن میں سے کئی غنڈہ گردی میں شامل تھے، جیسا کہ کئی وائرل ویڈیوز میں دیکھا گیا ہے، ان کے لیے اسکارف اتارنا آسان تھا، لیکن جو لڑکیاں ہر روز حجاب پہنتی ہیں، ان کے لیے یہ ذلت آمیز تھا، یہ فیصلہ ان کے وقار کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔
ہندوستان کے آئین کا آرٹیکل 25 ہر کسی کو مذہب پر عمل کرنے کے حق کی ضمانت دیتا ہے، اور حجاب پہننا اس کا ایک حصہ ہے۔ آئین کا آرٹیکل 21 رازداری کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔ پرائیویسی اس وقت ختم ہو جاتی ہے جب لڑکیوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے اسکول اور کالج کے دروازے کے باہر اپنا حجاب اتار دیں۔ اور یہ کرناٹک ہائی کورٹ کا عبوری حکم ہے جس کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔
اور جب تک ہائی کورٹ اور کرناٹک حکومت اس معاملے کو حل نہیں کرتی، حالات مزید خراب ہوتے جائیں گے۔ مثال کے طور پر، کس طرح اس لڑکی مسکان کو زعفرانی شال پہنے نوجوانوں نے کالج کیمپس میں ہراساں کیا اور پھر سوشل میڈیا پر بھی بدسلوکی کی۔ پھر، پرگیہ ٹھاکر کا یہ بیان، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مسلم لڑکیوں کو مدرسوں یا گھر میں حجاب پہننا چاہیے نہ کہ اسکولوں یا کالجوں میں۔ کیوں؟ اگر وہ لوک سبھا میں بھگوا پہن سکتے ہیں جیسا کہ ہمارا قانون انہیں اجازت دیتا ہے تو پھر وہی قانون ان طالبات کو حجاب پہننے کی اجازت کیوں نہیں دیتا؟ کیا ہندوستان کی مسلمان لڑکیاں اور مسلم خواتین دوسرے درجے کی شہری ہیں؟ نہیں، وہ نہیں ہیں۔ یہ جو انڈیا ہے نا.. یہ ایک سیکولر ملک ہے۔ اور وہاں سب کے لیے سیکولر ہے، نہ صرف پرگیہ ٹھاکر کے لیے۔
اور آخر میں.. پسند کی بات، چوائس کی بات ، اگر کوئی پنجابی یا ہندو لڑکی سر پر دوپٹہ لے کر کالج آئے تو کیا ہوگا؟ کیا ہم اسے روکیں گے؟
نہیں، یہ اس کی مرضی ہے۔ پسند ہے۔ تو، اگر ایک مسلمان لڑکی حجاب پہنتی ہے، تو کیا مسئلہ؟ یہ اس کی پسند ہے، یہ اس کا انتخاب ہے۔ اور بہت سی مسلمان عورتیں ہیں جو حجاب نہیں پہنتیں، بہت سی ہندو عورتیں ہیں جو سر نہیں ڈھانپتیں… اور یہ بھی ان کی پسند، ان کا انتخاب ہے۔ مسکان خان سے لے کر زینت امان تک، ہرسمرت کور بادل سے لے کر ہرناز سندھو تک، پرگیہ ٹھاکر سے پرینکا چوپڑا تک… ہندوستان کی خواتین کسی بھی قسم کے کپڑے پہن سکتی ہیں۔ اور ہمیں ان کی پسند کا احترام کرنا چاہیے، یعنی۔ اور، ہمیں کرنا ہے۔ یہی قانون ہے۔ لہٰذا، اس سے پہلے کہ ہندوستان کی مسلم خواتین پر مزید ہنگامہ برپا ہو، ہمیں امید ہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ آئین ہند کی ضمانت کے مطابق فیصلہ کرے گی، حجاب کی اجازت دے گی، اور اس معاملے کو جلد از جلد ختم کر دے گی۔
(بشکریہ: دی کوئنٹ ہندی)