امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کا کہنا ہے کہ ان کے ملک کی ترجیح اب غزہ میں یرغمال قیدیوں کی رہائی ہے۔ ملر کے مطابق ان لوگوں کو بچانا ممکن ہے۔
منگل کی شب العربیہ / الحدث نیوز چینلوں کو دیے گئے بیان میں ترجمان نے زور دیا کہ اس کے لیے مثالی طریقہ مذاکرات ہے۔
حماس کے سربراہ یحیی السنوار سمیت حماس کی سینئر قیادت کے خلاف مجرمانہ الزامات عائد کرنے سے متعلق واشنگٹن کے فیصلے پر ملر نے واضح کیا کہ ان کا ملک مطلوب افراد کو پکڑنے اور انھیں اپنے جرائم کے سبب عدالت میں پیش کرنے کو اہمیت دیتا ہے۔
غزہ کی پٹی میں جنگ روکنے کے لیے معاہدے تک پہنچنے میں ناکامی پر تبصرہ کرتے ہوئے ملر نے کہا کہ وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کے مشرق وسطی کے نو دورے ناکام نہیں رہے۔ اس دوران میں اسرائیل خلیج کم کرنے کی تجویز پر آمادہ ہوا لہذا یہ پیش رفت شمار ہو گی۔
امریکی ذمے دار نے فلاڈلفیا راہ داری کے گمبھیر معاملے اور مغربی کنارے میں موجودگی کے حوالے سے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی گفتگو کے بارے میں تبصرے سے انکار کر دیا۔ تاہم انھوں نے باور کرایا کہ غزہ، مغربی کنارے اور دو ریاستی حل کے حوالے سے واشنگٹن کا موقف واضح ہے۔
یاد رہے کہ اسرائیلی فوج نے اتوار کے روز غزہ پٹی کے جنوبی شہر رفح میں ایک سرنگ کے اندر سے 6 یرغمالیوں کی لاشیں ملنے کا اعلان کیا تھا۔ اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس کے اہل کاروں کے پہنچنے سے پہلے ان افراد کو "نزدیک سے” سے گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔
ادھر حماس نے قیدیوں کی ہلاکت کی ذمے داری اسرائیل پر عائد کی ہے۔ حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز کے ترجمان ابو عبیدہ نے پیر کے روز جاری بیان میں کہا کہ "نیتن یاہو کی جانب سے سمجھوتے کے بجائے عسکری دباؤ کے ذریعے قیدیوں کی رہائی پر اصرار کا مطلب ان افراد کی اپنے گھروں کو تابوتوں میں واپسی ہے”۔مذکورہ قیدیوں کی لاشیں ملنے کے بعد اسرائیل میں اتوار کے روز سے حکومت کے خلاف احتجاج سامنے آیا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم اس بات کو باور کرا چکے ہیں کہ وہ غزہ میں فائر بندی کا معاہدہ کرنے اور حماس کے پاس یرغمال افراد کی رہائی کے لیے اندرونی و بیرونی بڑھتے ہوئے دباؤ کے سامنے نہیں جھکیں گے۔ انہوں نے غزہ کی پٹی میں حماس کے خلاف فوجی دباؤ جاری رکھنے اور مصر کے ساتھ سرحدی راہ داری ‘فلاڈلفیا’ میں فوج باقی رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔